ٹی ایل پی کا لانگ مارچ روکنے کیلئے اسلام آباد میں نیم فوجی دستے تعینات

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2021
جہلم سے ٹی ایل پی کے عہدیدار نے بتایا کہ ریلی کو فیض آباد پہنچنے میں 
 2 دن لگیں گے— فوٹو: محمد عاصم
جہلم سے ٹی ایل پی کے عہدیدار نے بتایا کہ ریلی کو فیض آباد پہنچنے میں 2 دن لگیں گے— فوٹو: محمد عاصم

کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی اسلام آباد کی جانب مارچ کی دھمکی کے پیش نظر ایک ہزار ایف سی اور 500 رینجرز اہلکاروں کو پولیس کے ساتھ ریڈ زون اور اس کے اطراف میں تعینات، فیض آباد کے قریب مری روڈ کو سیل کر دیا گیا ہے جبکہ ٹی ایل پی کے عہدیدار روپوش ہو گئے ہیں۔

اسلام آباد:

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دارالحکومت کی انتظامیہ اور پولیس کو رینجرز کے 500 اہلکار فراہم کیے گئے ہیں جبکہ ٹی ایل پی کی جانب سے دارالحکومت کی جانب ممکنہ مارچ کو روکنے کے لیے ایک ہزار فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے اہلکاروں کا ایک دستہ ہفتہ کو ان کے ساتھ شامل ہوگا۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

دیگر مذہبی گروہوں کی متوقع حمایت کے ساتھ کالعدم تنظیم کا مقامی دفتر دھرنے کی میزبانی کے لیے تیار ہے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پیر تک فیض آباد پہنچ جائے گا۔

دوسری جانب لال مسجد پہلے ہی ٹی ایل پی کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے اور امکان ہے کہ طلبہ اور مولانا عبدالعزیز کے پیروکار آبپارہ یا لال مسجد کے ارد گرد اپنا احتجاج کریں گے۔

اس حوالے سے مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ وہ ٹی ایل پی کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں اور اپنے حامیوں کو فیض آباد دھرنے میں حصہ لینے کی ترغیب دیں گے۔

ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس کی درخواست پر دارالحکومت انتظامیہ نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا تاکہ رینجرز اور ایف سی کے اہلکار تعینات کیے جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ جواب میں 500 اہلکاروں پر مشتمل رینجرز کا ایک دستہ انتظامیہ کو فراہم کیا گیا جبکہ ایک ہزار ایف سی اہلکار ہفتہ (آج) پہنچیں گے۔

ریڈ زون اور فیض آباد انٹرچینج کے اطراف سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے جارہے ہیں جبکہ ترنول، بہارہ کہو اور راوت کے انٹری پوائنٹس پر 200 پولیس اہلکاروں کی ایک نفری تعینات کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: ٹی ایل پی اور پولیس میں جھڑپیں، 3 اہلکار شہید، متعدد زخمی

مزید یہ کہ فیض آباد اور ریڈ زون سمیت مختلف مقامات پر 1400 پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ دارالحکومت انتظامیہ اور پولیس کو مختلف علاقوں کو سیل کرنے کے لیے کنٹینرز کا بندوبست کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 3 دنوں میں صرف 60 کنٹینرز کا انتظام کیا ہے۔

ان میں سے 50 کنٹینر فیض آباد انٹرچینج جبکہ باقی 10 فرانسیسی سفارت خانے کے ارد گرد رکھے گئے تھے، پولیس افسران سے کہا گیا کہ وہ جلد سے جلد مزید کنٹینرز کا بندوبست کریں۔

ذرائع نے بتایا کہ انتظامیہ اور پولیس کو تمام ٹی ایل پی رہنماؤں، کارکنوں کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، اس کے علاوہ اگر کالعدم تنظیم نے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اس کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

حکومت کی جانب سے لاہور میں اسلام آباد سے ٹی ایل پی مارچ کے راستے میں آنے والے تمام اضلاع اور سڑکوں کو سیل اور بلاک کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا جبکہ لاہور میں ہونے والے مذاکرات کا پہلا دور بےنتیجہ ختم ہوا۔

کالعدم تنظیم کی مقامی قیادت کی اکثریت لاہور میں ہے جبکہ باقی رہنماؤں کے ساتھ کارکن، جو دارالحکومت میں موجود تھے، روپوش ہوگئے ہیں۔

اب تک پولیس نے اسلام آباد میں 50 رہنماؤں، کارکنوں کو گرفتار کیا ہے، مدارس کی انتظامیہ سے بھی رابطہ کیا گیا اور انہیں خبردار کیا گیا کہ وہ ٹی ایل پی کے احتجاج میں شامل ہونے سے گریز کریں۔

جنوبی پنجاب میں ٹی ایل پی کے ناظم محسن قادری نے بتایا کہ پولیس کا کریک ڈاؤن جاری ہے اور ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ ہمارے 70 کے قریب کارکنوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد میں پکڑ لیا گیا ہے لیکن بیشتر کارکن بشمول کئی عہدیدار روپوش ہو گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی پر سے پابندی ختم ہوجائے گی، علی محمد خان

انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی نے پولیس کو الجھانے کے لیے دھرنے سے پہلے اپنے عہدیداروں کو تبدیل کر دیا تھا کیونکہ قانون نافذ کرنے والے حکام کے پاس صرف ان کے متعلقہ علاقوں کے کارکنوں کا ڈیٹا موجود ہے۔

جہلم سے ٹی ایل پی کے عہدیدار نے بتایا کہ ریلی کو فیض آباد پہنچنے میں 2 دن لگیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا نیٹ ورک اب بھی برقرار ہے اور ہم پرامید ہیں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے باشندے بڑی تعداد میں ہمارے مقصد کی حمایت کے لیے نکلیں گے۔

علاوہ ازیں ملی یکجہتی کونسل (ایم وائے سی) کے سیکریٹری جنرل اور نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ حکومت، ٹی ایل پی کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں پر عمل کرے۔

تاہم ٹی ایل پی کے احتجاج کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گروپ پر پابندی حکومت کا ایک غیر سنجیدہ فیصلہ ہے کیونکہ حکام اس کے خلاف ایک ریفرنس بھی داخل نہیں کر سکے۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ کی مسلسل حراست غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کارروائیوں کی وجہ سے حکومت ملک بھر میں احتجاج کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

راولپنڈی عملی طور پر سیل

حکومت نے اسلام آباد کی طرف کالعدم ٹی ایل پی کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے گیریژن سٹی (راولپنڈی) کو عملی طور پر سیل کر دیا ہے۔

حکام نے راولپنڈی میں میٹرو بس سروس بھی معطل کردی ہے۔

دوسری جانب پولیس نے راولپنڈی ڈویژن کے مختلف علاقوں سے ٹی ایل پی کے مزید 146 کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔

146 کارکنوں میں سے 62 کو ضلع راولپنڈی سے، 34 کو جہلم سے اور 25 کو اٹک اور چکوال سے گرفتار کیا گیا۔

راولپنڈی کی مصروف ترین مری روڈ کو عملی طور پر صدر سے فیض آباد جانے والے مال بردار کنٹینرز کے ساتھ سیل کر دیا گیا تھا جبکہ ذیلی شاہراوں کو خاردار تاروں سے بند کر دیا گیا۔

مری روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے ایمبولینسز ہسپتالوں تک نہیں پہنچ سکیں، سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے انہیں پولیس نے واپس بھیج دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں