کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ڈی ایچ اے کو مزید زمین حاصل کرنے سے روک دیا

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2021
بغیر کسی سمندری مطالعے کے زمین کی بحالی سے پیدا ہونے والا خطرہ بالکل ناقابل واپسی ہے، عدالت - فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز
بغیر کسی سمندری مطالعے کے زمین کی بحالی سے پیدا ہونے والا خطرہ بالکل ناقابل واپسی ہے، عدالت - فائل فوٹو:وکی میڈیا کامنز

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو سمندر سے مزید زمین دوبارہ حاصل کرنے اور کسی کو بھی ایسی زمین دینے کے ساتھ ساتھ تیسرے فریق کی دلچسپی پیدا کرنے سے 16 نومبر تک کے لیے روک دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے ڈی ایچ اے اور دیگر سرکاری مدعا علیہان کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پہلے ان کو عوامی مقامات کے طور پر منظور شدہ زمین کو کیس کی اگلی سماعت تک کسی تجارتی اور فائدہ مند مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

جسٹس ذوالفقار احمد خان پر مشتمل بینچ نے ڈی ایچ اے کے زیر استعمال زمین کا معائنہ کرنے اور کراچی اربن لیب یا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی پاکستان کی مدد سے زمین کی تصاویر اور نقشوں کے ساتھ ایک رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک سرکاری تفویض کار مقرر کیا۔

عدالت نے سرکاری تفویض کار کو ہدایت کی کہ وہ 22 نجی اداروں کی تجارتی جگہوں کی ان کے ٹائٹل، قبضے اور زمین کے استعمال کے بارے میں 15 دن کے اندر تفصیلات بھی فراہم کرے جنہیں مقدمے میں بطور جواب دہندہ بھی نامزد کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو سمندر میں شہر بنا لیں، جسٹس گلزار

عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت کے لیے مدعا علیہان کو نوٹس دہرائے جائیں کیونکہ بیلف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان پر پیش کیے گئے نوٹس واپس کردیے گئے ہیں۔

عدالت نے یہ ہدایات 6 مدعیوں کی طرف سے دائر کردہ ایک مقدمے پر جاری کیں جن میں زیادہ تر ڈی ایچ اے کے باشندے تھے۔

سیکریٹری دفاع، ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن، کراچی کنٹونمنٹ بورڈ، کنٹونمنٹ بورڈ فیصل، سول ایوی ایشن اتھارٹی، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور کئی دیگر سرکاری اتھارٹیز اور نجی اداروں کو بطور مدعا علیہان نامزد کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ دوبارہ حاصل کی گئی زمین کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ جو زمین کنٹونمنٹ مقاصد کے لیے تھی اسے بھی تجارتی اور فائدہ مند مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

درخواست گزار کے کے وکلا نے دلیل دی کہ حال ہی میں 22 نجی مدعا علیہان نے سرکاری مدعا علیہان کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر دوبارہ حاصل کی گئی زمین اور دفاعی مقاصد کے لیے زمین کھلی نیلامی کے بغیر حاصل کی تھی اور وہاں شادی ہال، سپر اسٹور، ہاؤسنگ سوسائٹی، کمرشل و رہائشی تعمیرات کی تھیں جو سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دفاعی مقاصد کے لیے زمین کو عام شہریوں کو فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی منافع بخش مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی اے ایف میوزیم اور ڈیفنس اتھارٹی کریک کلب کو شادی و تقریبات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور عسکری 4 کے قریب مین راشد منہاس روڈ پر سینما اور شادی ہال چل رہے ہیں جبکہ ڈالمیا روڈ اور ایئرپورٹ کے قریب شادی ہال بھی قائم کیے گئے ہیں۔

وکیل نے مزید دلیل دی کہ ڈی ایچ اے کو 9 ہزار 611 ایکڑ پر قبضے کا حق ہے لیکن اس نے علاقے کے مختلف حصوں میں غیر قانونی طور پر 3 ہزار 600 ایکڑ پر قبضہ کر لیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے وکیل کی عدالت سے فوج کو 'قبضہ مافیا' قرار دینے کے ریمارکس حذف کرنے کی درخواست

انہوں نے الزام لگایا کہ ڈی ایچ اے نے فیز 8 میں 117 ایکڑ پر بھی قبضہ کر لیا تھا جبکہ اس کے پاس زمین پر قبضہ، ملکیت کے حقوق اور وفاقی حکومت کی اجازت نہیں تھی اور یہ آئین کے آرٹیکل 172 (2) کی خلاف ورزی تھی۔

بینچ نے اپنے حکم میں نشاندہی کی کہ وکیل نے استدلال کیا کہ زمین کی غیرضروری بحالی اور ماحولیاتی اثرات کا کوئی تجزیہ نہیں کیا گیا اور اس تنازع کی تصدیق سندھ کے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے ایک افسر نے عدالت میں کی۔

عدالت نے نشاندہی کی کہ وکیل کے مطابق اس طرح کے بڑے پیمانے پر زمین کے دعوے کی وجہ سے کراچی بندرگاہوں کو سنگین خطرہ لاحق ہے کیونکہ زیر زمین ریت بندرگاہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور پانی کی گہرائی کو کم کر رہی ہے جس سے مسلسل ڈریجنگ کی ضرورت پڑ رہی ہے۔

بینچ نے کہا کہ وکیل کی طرف سے اٹھائے گئے تنازع پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے کیونکہ بغیر کسی سمندری مطالعے یا دیگر مطالعات کے زمین کی بحالی سے پیدا ہونے والا خطرہ بالکل ناقابل واپسی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں گلوبل وارمنگ کے اثرات پہلے ہی واضح ہیں اور جب دنیا نیٹ زیرو دور کی جانب بڑھ رہی ہے تو بے ترتیب اور غیر ضروری زمین کی بحالی جیسی سرگرمیوں پر سوال اٹھے گا‘۔

کیس کی اگلی سماعت تک مدعا علیہان کو عدالت کے علاقائی دائرہ اختیار میں موجود کسی بھی ساحل سے مزید اراضی کو دوبارہ حاصل کرنے یا کسی کو ایسی زمین دینے یا ان زمینوں یا اس پر بنائی گئی جائیدادوں پر کسی تیسرے فریق کی دلچسپی پیدا کرنے سے روک دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں