سوڈان میں 'بغاوت': وزیراعظم اور دیگر عہدیدار زیر حراست، انٹرنیٹ سروس معطل

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2021
مسلح افواج نے وزیر اعظم کو بغاوت کی حمایت سے انکار پر حراست میں لے لیا، وزارت اطلاعات سوڈان - فائل فوٹو:
مسلح افواج نے وزیر اعظم کو بغاوت کی حمایت سے انکار پر حراست میں لے لیا، وزارت اطلاعات سوڈان - فائل فوٹو:

سوڈان کی افواج نے ملک کے وزیراعظم سمیت حکومت کے کئی سینئر عہدیداروں کو حراست میں لے لیا جبکہ ملک کی وزارت اطلاعات نے عوام پر زور دیا کہ وہ ایک واضح فوجی بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے سڑکوں پر آئیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق وزارت اطلاعات نے بتایا کہ مسلح افواج نے سوڈان کے وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک کو پیر کے روز حراست میں لیا جب انہوں نے ان کی ’بغاوت‘ کی حمایت سے انکار کر دیا تھا۔

وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ ’جب انہوں نے بغاوت کا حصہ بننے سے انکار کیا تو فوج کی ایک فورس نے وزیراعظم عبداللہ ہمدوک کو حراست میں لے لیا اور ایک نامعلوم مقام پر لے گئے‘۔

ایک اور غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق سوڈان کی وزارت اطلاعات نے کہا کہ انٹرنیٹ منقطع کر دیا گیا ہے اور فوجی دستوں نے پلوں کو بند کر دیا ہے جبکہ ملک کے سرکاری نیوز چینل محب وطن روایتی موسیقی اور دریائے نیل کے مناظر دکھاتا رہا۔

مزید پڑھیں: سوڈان میں سویلین ملٹری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام

ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت امت پارٹی نے گرفتاریوں کو بغاوت کی کوشش قرار دیا اور لوگوں سے مزاحمت کے لیے سڑکوں پر آنے کا مطالبہ کیا۔

اس سے قبل جمہوری نظام کے طریقہ کار کی جانب منتقلی کا مطالبہ کرنے والی تنظیم سوڈانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن نے اسی طرح کا مطالبہ کیا تھا۔

فوج کی طرف سے ممکنہ قبضہ سوڈان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا جو طویل عرصے سے سابق آمر عمر البشیر کے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں سے ہٹائے جانے کے بعد سے جمہوریت میں منتقلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔

آج ہونے والی گرفتاری سوڈان کے عوامی اور فوجی رہنماؤں کے درمیان ہفتوں سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد سامنے آئی ہے۔

ستمبر میں ناکام بغاوت کی کوشش نے ملک میں پرانی رنجشوں کو تازہ کردیا تھا جہاں اسلام پسند فوجی حکومت کا مطالبہ کر رہے تھے جبکہ دو سال سے زیادہ عرصہ پہلے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں میں عمر البشیر کا تختہ الٹنے والوں کا نظریہ اس سے مختلف تھا۔

حالیہ دنوں میں دونوں نظریات کے افراد مظاہرے کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے ہیں۔

وزارت اطلاعات نے اپنے فیس بک پیج پر ایک مختصر بیان میں کہا کہ گرفتار عہدیداروں کے ٹھکانے معلوم نہیں ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس کس کو حراست میں لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سوڈان اور اسرائیل کا تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق

اس سے قبل دو عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی تھی کہ کم از کم 5 سرکاری شخصیات کو حراست میں لیا گیا ہے۔

حکام نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے حکومتی اراکین میں وزیر صنعت ابراہیم الشیخ، وزیر اطلاعات حمزہ بلول اور ملک کی عبوری حکمران کونسل، جو خودمختار کونسل کے نام سے جانا جاتا ہے، کے رکن محمد الفکی سلیمان اور فیصل محمد صالح سمیت وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک ایک میڈیا ایڈوائزر شامل ہیں۔

عبداللہ ہمدوک اور عبوری کونسل کے تحت سوڈان آہستہ آہستہ عمر البشیر کے تحت کئی سالوں سے بین الاقوامی آئی سولیشن سے باہر آرہا تھا۔

اس ملک کو 2020 میں امریکا کی ریاستی دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا جس سے بین الاقوامی قرضوں اور سرمایہ کاری کی راہ کھلی تھی۔

وزارت اطلاعات کے آفیشل فیس بک پیج کے مطابق دارالحکومت خرطوم پر مشتمل ریاست کے گورنر ایمن خالد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

1956 میں برطانیہ اور مصر سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے سوڈان میں اس سے قبل بھی کئی فوجی بغاوتیں ہوچکی ہیں۔

عمر البشیر 1989 کی فوجی بغاوت میں اقتدار میں آیا جس نے ملک کی آخری منتخب حکومت کو ہٹا دیا تھا۔

گرفتاریاں ایسے وقت میں سامنے آئیں جب امریکا کے خصوصی سفیر برائے افریقہ جیفری فیلٹ مین نے سوڈانی فوجی اور سویلین رہنماؤں سے ہفتہ اور اتوار کو تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں میں ملاقاتیں کی تھیں۔

مزید پڑھیں: سوڈان: عمرالبشیر کی برطرفی کے بعد اصلاحات میں تیزی کیلئے عوامی احتجاج

سوڈان کی سرکاری نیوز ویب سائٹ نے فوجی حکام کے ساتھ ملاقاتوں پر روشنی ڈالی تھی۔

سوڈانی کمیونسٹ پارٹی نے اسے خود مختار کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان کی مکمل فوجی بغاوت قرار دیتے ہوئے کارکنوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ہڑتال کریں اور بڑے پیمانے پر سول نافرمانی کریں۔

انٹرنیٹ کی رکاوٹوں کی اطلاع دینے والے گروپ نیٹ بلاکس نے کہا کہ ادارے نے سوڈان بھر میں فکسڈ لائن اور موبائل انٹرنیٹ کنکشن دونوں میں پیر کے اوائل میں متعدد سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے رکاوٹیں دیکھی ہیں۔

ادارے نے کہا کہ انٹرنیٹ کی بندش سے آن لائن معلومات کے آزاد بہاؤ اور زمینی حقائق کی خبروں کی کوریج کو محدود کرنے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں