میانمار: آنگ سانگ سوچی کے قریبی ساتھی کو 20 سال قید کی سزا

29 اکتوبر 2021
آنگ سانگ سوچی کے قریبی ساتھی اس سےقبل
آنگ سانگ سوچی کے قریبی ساتھی اس سےقبل

میانمار کی فوجی حکومت نے سابق لیڈر آنگ سانگ سوچی کے قریبی ساتھی وین ہٹین کو سنگین غداری کے الزام پر 20 سال قید کی سز سنا دی۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق میڈیا اور ان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ وین ہٹین کو سنگین غداری کے الزام پر عدالت نے سزائی دے دی ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا میانمار میں سنگین جرائم کے ارتکاب کے خدشات کا اظہار

آنگ سانگ سوچی کے حامی 79 سالہ وین ہٹین فوجی حکومت کے خاتمے کے دہائیوں تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرچکے ہیں۔

انہیں رواں برس یکم فروری کو ایک مرتبہ پھر گرفتار کیا گیا تھا جب میانمار کی فوج نے آنگ سانگ سوچی کی ایک دہائی تک قائم رہنے والی سول حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق وین ہیٹن کی بیٹی چیٹ سو ون ہٹین نے بتایا کہ یہ سب کچھ متوقع تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ غیرمتوقع نہیں تھا لیکن یہ افسوس کی بات ہے اور مضحکہ خیز سزاؤں کے بارے میں سن رہے ہیں، اس ناانصافی کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔

قبل ازیں رواں ہفتے عدالت نے آنگ سانگ سوچی پر پہلی مرتبہ فرد جرم عائد کی تھی جبکہ انہوں نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

میانمار کے سرکاری میڈیا نے آنگ سانگ سوچی کے خلاف کئی کیسز کے حوالے سے اس پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا تھا تاہم ان کے وکیل واحد ذریعہ ہیں جو میڈیا کو آگاہ کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل اقوام متحدہ نے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ میانمار میں فوج کے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوجی بغاوت کیخلاف مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 800 سے زائد ہوگئی

جنرل اسمبلی کے لیے میانمار کی انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ پیش کرنے والے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹوم اینڈریوز نے کہا تھا کہ انہیں معلومات ملی ہیں کہ ہزاروں فوجی اور اسلحہ ملک کے شمالی اور شمال مغربی علاقے میں منتقل کیا جارہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فوجی حکومت ملک میں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں ملوث ہے۔

ٹوم اینڈریوز نے کہا کہ ہم سب کو تیار رہنا چاہیے کہ میانمار کے اس علاقے کے لوگ مزید سنگین جرائم کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، مجھے شدت سے چاہوں گا کہ میں غلط ثابت ہوجاؤں۔

مقامی تنظیم کے مطابق ملک میں بدترین کارروائیوں کے دروان ایک ہزار 100 سے زائد عام شہریوں کو قتل کیا گیا اور رواں برس فوجی حکومت کے قیام کے بعد ملک بھر میں 8 ہزار سےزائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے نمائندے نے کہا کہ یہ حربے 2016 اور 2017 میں ریاست رخانے میں روہنگیا کے خلاف بدترین جرائم کے ارتکاب سے قبل فوج میں بھرتی کیے جانے والے افراد کی کارروائیوں کی یاد دلاتے ہیں۔

خیال رہے کہ میانمار کے فوجی جرنیلوں نے رواں برس یکم فروری کو حکومت کا تختہ اُلٹتے ہوئے 75 سالہ آنگ سان سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔

مزید پڑھیں: میانمار: فوجی حکومت کے خلاف احتجاج، پولیس کی فائرنگ سے مزید 38 افراد ہلاک

جرنیلوں نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ پچھلے سال نومبر میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا جہاں مذکورہ انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کلین سوئپ فتح حاصل کی تھی۔

میانمار میں فوج نے کئی دہائیوں تک حکومت کی لیکن ایک دہائی قبل عوامی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا۔

فوجی حکومت میں زیادہ عرصہ تک نظربند رہنے والی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو ان کی کاوشوں پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں