تقریباً 4 ہفتے کی گہما گہمی کے بعد آئی سی سی ٹی20 کرکٹ ورلڈکپ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس 7ویں ورلڈکپ کا انعقاد متحدہ عرب امارات اور عمان میں کیا گیا تھا لیکن اس کا میزبان بھارت تھا۔ اس ورلڈکپ کا فاتح آسٹریلیا رہا جس نے دبئی میں کھیلے جانے والے فائنل میں نیوزی لینڈ کی ایک مضبوط ٹیم کو 8 وکٹوں سے شکست دے کر نہ صرف ٹی20 کرکٹ کا تاج اپنے سر سجایا بلکہ ایک بڑی رقم بھی دبوچ لی۔

آسٹریلیا کو فائنل جیتنے پر 16 لاکھ ڈالر کی انعامی رقم تو حاصل ہوئی لیکن ساتھ ہی سپر 12 مرحلے میں جیتے گئے میچوں پر مزید ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر کی انعامی رقم بھی ملی۔

ورلڈکپ فائنل میں شکست خوردہ ٹیم یعنی نیوزی لینڈ کے حصے میں فائنل کھیلنے پر 8 لاکھ ڈالر آئے جبکہ اسے سپر12 مرحلے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر مزید دیے گئے۔

سپر12 مرحلے کے بعد ٹورنامنٹ سے باہر ہونے والی ہر ٹیم کو 70 ہزار ڈالر دیے گئے جبکہ پہلے راؤنڈ میں شامل ٹیموں کو ہر جیتے گئے میچ پر 40 ہزار ڈالر دیے گئے۔

آئی سی سی نے اس ورلڈکپ کے لیے کل 56 لاکھ ڈالر کی انعامی رقم مختص کی تھی اور اس سے تمام ٹیمیں فیضیاب ہوئیں۔ پاکستان کو مجموعی طور پر 6 لاکھ ڈالر کی انعامی رقم ملی اور یوں پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔

آسٹریلیا  نے نہ صرف ٹی20 کرکٹ کا تاج اپنے سر سجایا بلکہ ایک بڑی رقم بھی دبوچ لی— تصویر: رائٹرز
آسٹریلیا نے نہ صرف ٹی20 کرکٹ کا تاج اپنے سر سجایا بلکہ ایک بڑی رقم بھی دبوچ لی— تصویر: رائٹرز

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ میزبان ملک بھارت کی کارکردگی بہت ہی خراب رہی اور وہ ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا۔ مہمانوں نے میزبان کو جس طرح شکست سے دوچار کیا اس سے نہ صرف بھارتی ٹیم بلکہ ٹیم کی فتح کے لیے پُرامید بھارتی شائقین کو بھی بہت بڑا دھچکا لگا۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یقین مانیے کہ پاکستانی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں خلافِ توقع بہترین ٹیم ثابت ہوئی ہے، اور اس نے اپنی کارکردگی اور حسن اخلاق سے پوری دنیائے کرکٹ کے دل جیت لیے ہیں۔

سیمی فائنل تک پہنچتے پہنچتے بابر اعظم اور ان کے کھلاڑیوں نے بہت ہی کامیابی سے سپر12 مرحلے میں ہر حریف کو شکست دی۔ یہ ان کی بدقسمتی کہیے یا آخری اوورز میں کوتاہی کہ جس کی وجہ سے انہیں آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، ورنہ یہی لگ رہا تھا کہ اس مرتبہ پاکستانی ٹیم ورلڈکپ ٹرافی اپنے نام کر ہی لے گی۔

قومی ٹیم نے بھارت کو 10 وکٹوں سے شکست دے کر ان لوگوں کے منہ بھی بند کردیے جو کہتے تھے کہ پاکستان ٹی20 ورلڈکپ میں بھارت کے خلاف کبھی کوئی میچ نہیں جیتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان نے نیوزی لینڈ جیسی مستحکم ٹیم کو بھی شکست دی۔ اس کے علاوہ بھی جتنی ٹیمیں پاکستانی ٹیم کے مقابل آئیں وہ اس کی بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ کے آگے ڈھیر ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیائے کرکٹ کے معتبر نام پاکستانی ٹیم کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

جتنی ٹیمیں پاکستانی ٹیم کے مقابل آئیں وہ اس کی بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ کے آگے ڈھیر ہوگئیں— تصویر: اے ایف پی
جتنی ٹیمیں پاکستانی ٹیم کے مقابل آئیں وہ اس کی بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ کے آگے ڈھیر ہوگئیں— تصویر: اے ایف پی

آخر ایسی کیا وجہ تھی جس کے سبب پاکستانی ٹیم میں اچانک ایسی تبدیلی واقع ہوگئیں۔ اس سوال پر مختلف لوگ اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں اور پاکستانی ٹیم کی خامیوں اور اچھائیوں پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ تاہم یہ بات تو حقیقت ہے کہ قومی ٹیم نے لوگوں کو بہت متاثر کیا ہے۔

کھیل تو جیتنے کے لیے ہی کھیلا جاتا ہے اور ہار جیت ہر کھیل کا حصہ ہوتی ہے۔ کھیل میں جیت یا ہار کا تعین کھیلنے والے کی کارکردگی سے ہوتا ہے۔ اکثر یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ باؤلنگ میں حسن علی کی کارکردگی بہت خراب تھی اور انہیں ٹیم سے باہر کردینا چاہیے تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ سیمی فائنل کے آخری اوورز میں شاہین آفریدی نے بہت ہی خراب باؤلنگ کی ورنہ ہم میچ جیت جاتے، یعنی جتنے منہ اتنی باتیں۔

دیکھیے ٹی20 کرکٹ صرف 120 گیندوں کا کھیل ہے اور اس میں ہر ٹیم کا دن آتا ہے۔ کبھی مسلسل فتوحات ہوتی رہتی ہیں تو کبھی شکست، اور اس ضمن بھارتی ٹیم کی مثال دی جاسکتی ہے۔ کرکٹ کے کیھل میں یہی ایک مزہ ہے کہ کوئی بھی کھیل کے نتیجے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہاں اچھی اور مضبوط ٹیموں کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ورلڈکپ میں پاکستان نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ آپ یقین کیجیے کہ اس ورلڈکپ سے قبل کوئی بھی ماہر کرکٹ اس بات کا اندازہ نہیں لگاسکا تھا کہ پاکستانی ٹیم بابر اعظم کی قیادت میں اس قدر بہترین کرکٹ کا مظاہرہ کرے گی اور آغاز سے اختتام تک دوسری ٹیموں پر حاوی رہے گی۔ قومی ٹیم نے بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ میں جس یکسانیت اور اعتماد کا مظاہرہ کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹیم میں اتحاد اور قیادت پر بھروسہ ہو تو فتح یقینی ہوتی ہے۔ یہی کچھ شائقین نے بھی محسوس کیا اور وہ اس سے محظوظ بھی ہوئے۔

یقین کیجے کہ پاکستانی ٹیم کی اس بہترین اور خلاف توقع کارکردگی نے مجھے بھی حیران کردیا۔ میرے خیال میں ٹیم کی پہلی سلیکشن اور پھر اس میں ہونے والی تبدیلیاں، شعیب ملک اور فخر زمان کی ٹیم میں شمولیت اور محمد حفیظ کو برقرار رکھنا، اس کے علاوہ سابق آسٹریلوی بلے باز میتھیو ہیڈن اور جنوبی افریقی فاسٹ باؤلر ویرنن فلینڈر کو بیٹنگ اور باؤلنگ کوچ بنانا ہی ٹیم کی اس کارکردگی کی وجہ بنا۔ اس کے علاوہ ٹورنامنٹ کا عرب امارات کی سرزمین پر ہونا بھی پاکستان کے لیے فائدہ مند رہا۔

پاکستان کی اس بہترین کارکردگی میں میتھیو ہیڈن اور ویرنن فلینڈر کا بھی ہاتھ ہے— تصویر: ٹوئٹر
پاکستان کی اس بہترین کارکردگی میں میتھیو ہیڈن اور ویرنن فلینڈر کا بھی ہاتھ ہے— تصویر: ٹوئٹر

نیوزی لینڈ کی ٹیم کا سیکیورٹی کو وجہ بناکر اچانک پاکستان کا دورہ منسوخ کرنا اور پھر انگلینڈ کا بھی دورہ پاکستان سے انکار سے جو دھچکا پاکستان کرکٹ اور شائقینِ کرکٹ کو لگا تھا، اس ٹورنامنٹ نے وہ سب کچھ بھلا دیا ہے۔ اب دنیا پر یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ پاکستان میں بہترین کرکٹ کھیلی جاتی ہے اور یہاں کرکٹ کا ٹیلنٹ کسی اور ملک سے کم نہیں ہے۔

محمد رضوان کی بیٹنگ اور بابر اعظم کی قیادت اور پختگی کے ساتھ بیٹنگ، شعیب ملک، محمد حفیظ اور آصف علی کی بروقت اور فیصلہ کن کارکردگی نے پاکستان کو فائنل کے قریب تر لاکھڑا کیا۔ پھر شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور شاداب خان کی نپی تلی باؤلنگ نے بھی شائقین کے دل گرمائے رکھے۔ یہاں تک کہ حریف ٹیمیں بھی پاکستانی کھلاڑیوں کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکیں۔

ہار یا جیت سے قطع نظر اس ٹورنامنٹ کے ذریعے نہ صرف دنیائے کرکٹ میں پاکستان کی شبیہہ بہتر ہوئی ہے بلکہ ملک کے اندر بھی کرکٹ کے کھیل کو فروغ ملا ہے۔ اب وہ دن دُور نہیں جب ایک بار پھر کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کا کردار تسلیم کیا جائے گا اور غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آنے لگیں گی۔

پاکستانی ٹیم اس وقت بنگلہ دیش کے دورے پر ہے جہاں ٹی20 اور ایک روزہ میچوں کے علاوہ 2 ٹیسٹ میچ بھی کھیلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ یہاں پاکستان میں ویسٹ انڈیز کی خواتین کرکٹ ٹیم کے آنے بعد اب ویسٹ انڈیز کی مردوں کی کرکٹ ٹیم بھی آنے والی ہے۔ پھر اگلے سال فروری میں آسٹریلوی ٹیم بھی پاکستان آنے کے لیے ہامی بھر چکی ہے۔

پاکستان کے لیے ڈومیسٹک سطح اور بین الاقوامی سطح پر میزبانی کا ایک بھرپور سیزن شروع ہونے کو ہے اور اگر حالات سازگار رہے تو اس دوران ملک میں گہما گہمی عروج پر رہے گی۔ اس سے نہ صرف کھیل کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ اس کے معاشی اثرات بھی ہوں گے۔

پھر اس سے اچھی خبر اور کیا ہوسکتی ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے 2025ء کی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کا اعزاز پاکستان کو دیا گیا ہے جو پاکستان کے لیے بہت ہی فخر کی بات ہے۔ تاہم ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت اپنی شرمندگی اور شکست کو مٹانے کے لیے پاکستان آکر چیمپئنز ٹرافی کھیلے گا؟ وقت ہی بتائے گا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کیا 2025ء بھارت میں یہی بی جے پی حکومت قائم رہے گی یا پھر ان کی سوچ میں تبدیلی آئے گی۔

سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی ٹیم 2025ء کی چیمپئنز ٹرافی کھیلنے پاکستان آئی گی؟ —تصویر: اے ایف پی
سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی ٹیم 2025ء کی چیمپئنز ٹرافی کھیلنے پاکستان آئی گی؟ —تصویر: اے ایف پی

2007ء کے بعد سے بھارت نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیریز کھیلنے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان آنے اور پاکستانی ٹیم کو دعوت دینے سے بھی انکار کیا ہوا ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ صرف آئی سی سی مقابلوں میں ہی کھیلتا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ساروو گنگولی کی قیادت میں بھارتی کرکٹ بورڈ پاکستان کے ساتھ کرکٹ تعلقات بحال کرنے پر آمادہ ہوتا ہے یا نہیں۔

پاکستان نے ہمیشہ تعلقات کی بحالی کی ہی کوششیں کی ہیں لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا ہے۔ شاید ٹی20 ورلڈکپ میں ہونے والی شکست بھارت کو کرکٹ تعلقات کی بحالی پر مجبور کرے۔ اب تو بھارت میں بھی شائقین کرکٹ اس بات کے حامی ہوچکے ہیں کہ دونوں ممالک کے کرکٹ تعلقات میں حائل دیوار کو گرایا جائے۔

بہرحال ٹی20 ورلڈکپ 2021ء کے تمام واقعات اور شکست و فتوحات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان نے کرکٹ کے کھیل میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیا ہے۔

ٹی20 ورلڈکپ 2021ء کی بات کی جائے تو ٹم ساؤتھی، مارٹن گپٹل، کین ولیمسن، مچل اسٹارک، مچل مارش، ڈٰیوڈ وارنر، جیسن رائے اور جوس بٹلر کی کارکردگی ایک جانب اور پاکستانی کھلاڑیوں کی مجموعی اور انفرادی کارکردگی ایک جانب۔ یعنی اس ٹورنامنٹ سے ہم نے پایا بہت کچھ اور کھویا بہت کم۔ اس ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم نے جو کارکردگی دکھائی ہے اس نے پاکستان کو دوبارہ صفِ اول کی ٹیموں میں لاکھڑا کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں