اویس بن نسیم جانتے ہیں کہ آپ اپنی زندگی کی تمام جنگوں میں کامیابی نہیں پاسکتے اور آپ کو ایسی کوئی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔ مگر وہ جس جنگ کو جیتنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اس کا ہدف ان کی کمپنی کے تیار کردہ پراڈکٹ کی معاشرتی اور ماحولیاتی اعتبار سے پائیدارنہ قدر میں اضافہ کرنا ہے۔ یہاں ہم آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ ان کی کمپنی مائع چیزوں کی پیکنگ میں استعمال ہونے والے ٹیٹرا پیک بناتی ہے۔

اویس بن نسیم مکینکل انجینیئر ہونے کے ساتھ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے بزنس مینجمنٹ کی ڈگری بھی رکھتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے وہ پاکستان میں کھانے پینے کی مائع چیزوں کی پیکنگ اور پراسسنگ کرنے والی سویڈش کمپنی ٹیٹرا پیک کی پاکستان میں قائم شاخ سے بطور منیجنگ ڈائریکٹر وابسطہ ہیں۔ موجودہ عہدے تک ترقی پانے سے پہلے وہ گریٹر مشرق وسطیٰ اور افریقی خطے میں کام کرنے والی کمپنی کی شاخوں میں بطور ڈائریکٹر فرائض انجام دے چکے ہیں۔

اویس بن نسیم تقریباً 15 برس ٹیٹرا پیک کی جانب سے شروع کردہ اشیا کے پائیدارانہ استعمال سے متعلق تفاخر سے بتاتے ہیں کہ 'پاکستان میں ہم اپنی سالانہ پیدوار کا 41 فیصد یا 26 ہزار ٹن حصہ ری سائیکل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ گزشتہ سال تک ری سائیکل ہونے والے ڈبوں کی مجموعی تعداد تقریباً 5 ارب بنتی ہے۔ اگلے سال ہم 28 ہزار استعمال شدہ ٹن ڈبوں کی ری سائیکلنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ٹیٹرا پیک جن 190 ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے پاکستان کا شمار درجہ بندی میں صفِ اول کے 10 ملکوں میں ہوتا ہے'۔

پڑھیے: بات سنیے! آپ کے پھیلائے کوڑے کو اٹھانا کسی کمتر کا فریضہ نہیں

اینگرو، ڈیڈیکس اور ٹیٹرا پیک جیسی کمپنیوں میں آپریشنز اور بزنس ڈیولپمنٹ کی سربراہی کا 25 سال سے زائد تجربہ رکھنے والے اویس بن نسیم بتاتے ہیں کہ ہم نے اس مقصد کے لیے کراچی اور لاہور کی 2 ری سائیکلنگ کمپنیوں سے شراکت داری قائم کی ہوئی ہے اور آزمودہ، بہتر نتائج دینے والا اور مالی طور پر پائیدار ری سائیکلنگ ماڈل تیار کیا ہے۔

استعمال شدہ ٹیٹرا پیک ڈبوں جو جمع کرنے اور ان کی ری سائیکلنگ کے بعد بننے والی اشیا کی مارکیٹنگ کے لیے ہم ری سائیکلنگ کمپنیوں سے تعاون بھی کرتے ہیں۔چونکہ یہ بہت چھوٹی کمپنیاں ہیں لہٰذا انہیں ہماری معاونت درکار رہتی ہے۔

ری سائیکلنگ کمپنیوں نے ٹیٹرا پیک ڈبوں سے کاغذ، الیومینیم اور پولیتھلین کو الگ الگ کرنے کی ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔ کاغذ کو گتوں جبکہ الیومینیم اور پولیتھلین کو چھت پر استعمال ہونے والی ٹائلوں اور سلوں کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کی مدد سے آپ کمرے میں درجہ حرارت میں 10 ڈگری کی کمی کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ اس مٹیریل سے کیبن، لان اور پارک کے فرنیچر اور جھولوں کو بھی تیار کرتے ہیں۔ اپنے معیار اور پائیداری کی وجہ سے ان مصنوعات کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔

ٹیٹرا پیک کے مینیجنگ ڈائریکٹر اویس بن نسیم
ٹیٹرا پیک کے مینیجنگ ڈائریکٹر اویس بن نسیم

اویس بن نسیم بجا طور پر کہتے ہیں کہ کسی پراڈکٹ کے پائیدار استعمال سے متعلق منصوبوں کی کامیابی کا بڑی حد تک انحصار ان سے جڑی منافع بخش معاشی سرگرمی پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے کہ بلین ٹری سونامی منصوبے کو گتے اور گودے کی درآمدات کی متبادل کمرشل سرگرمی سے جوڑ دینا چاہیے۔ حکومت کو جنگلات کے کمرشل استعمال کے تصور کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ شجرکاری کے جس منصوبے سے اگر معاشی سرگرمی جڑی نہیں ہوگی تو وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پائے گا۔

ری سائیکلنگ سے جڑے مسائل

پاکستان میں ری سائیکلنگ کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ فضلے کو ٹھکانے لگانے کا انتظام اور استعمال شدہ چیزوں کے پائیدار استعمال سے جڑے منصوبوں کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ری سائیکلرز کو استعمال شدہ ٹیٹرا پیک ڈبوں کو اکھٹا کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کی شروعات وہاں سے ہوتی جہاں یہ پیکٹ خالی ہوتے ہیں: یعنی گھر اور ریسٹورینٹ وغیرہ۔

ہمارے ملک میں ہر طرح کے کوڑے کرکٹ کو ایک ہی ڈبے میں ڈال دیا جاتا ہے اور یہاں مختلف اقسام کے ٹھوس فضلے، یعنی شیشے، کاغذ، پلاسٹک وغیرہ کو الگ الگ رکھنے کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ ایک کوڑے دان سے خالی ڈبوں کو اکھٹا کرنے کے عمل سے ری سائیکلنگ کی لاگت 2 سے 3 گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ کوڑے کو علیحدہ کرنا کافی دشوار گزار کام ہے۔

اویس بن نسیم بتاتے ہیں کہ، 'اس طرح ری سائیکلنگ کے قابل فضلے کے معیار کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ مثلاً اگر ہمارے ڈبوں کو استعمال کے بعد اگلے 3 دنوں کے دوران کوڑے سے الگ نہ کیا جائے تو یہ ری سائیکل کے قابل نہیں رہتے اور انہیں لینڈ فل سائٹس پر زمین برد کرنا پڑجاتا ہے۔

پڑھیے: کچرا کم کرنے اور اسے دوبارہ استعمال کرنے کے چند مفید مشورے

'اس کے علاوہ ہمارے ملک میں فضلے کی رسائیکلنگ کے حوالے سے کوئی قانونی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں فضلے سے منافع بخش معاشی سرگرمی کے مواقع پیدا کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ ٹیٹرا پیک اپنے فضلے کی اچھی خاصی تعداد کو ری سائیکل کرنے میں اس لیے کامیاب ہوسکا ہے کیونکہ ہم گزشتہ تقریباً 10 برسوں کے دوران اس کام کو منافع بخش معاشی سرگرمی سے جوڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ چیزوں کے پائیدارانہ استعمال سے متعلق مناسب کاروباری ماڈلز اور اقتصادی سرگرمیوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے قانونی ڈھانچہ اور انفرااسٹرکچر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے قانون فراہم کرنا چاہیے. جب حکومت کہے گی کہ آپ تمام ٹھوس فضلہ ایک ہی کوڑے دان میں نہیں ڈال سکتے تو صارفین فضلے کو الگ الگ رکھنا شروع کردیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کون فضلے کو ٹھکانے لگانے میں اپنا وقت اور پیسے خرچ کرنا چاہے گا؟‘

اس وقت ری سائیکلنگ کمپنیاں خود سے ایک سے دوسری رہائشی سوسائٹی جا جا کر لوگوں سے ٹھوس فضلے کو الگ الگ رکھنے کی درخواست کر رہی ہیں۔ 'چونکہ پاکستان میں چیزوں کے پائیدارانہ استعمال کے منصوبوں سے متعلق کسی قسم کا قانون موجود نہیں ہے اس لیے ہمیں خود سے ہی یہ کام کرنا پڑرہا ہے‘۔

اویس بن نسیم بتاتے ہیں کہ ان کی کمپنی فضلے کے پائیدارانہ استعمال سے متعلق قانون وضوابط کی تشکیل اور عوامی آگاہی کے لیے دیگر صنعتی اسٹیک ہولڈرز اور حکومت سے رابطے میں ہے۔

مینیجنگ ڈائریکٹر نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'ہر ایک اس میدان میں کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے لہٰذا اب ہم ایک ایسا صنعتی اتحاد قائم کرچکے ہیں جو فضلے کی ری سائیکلنگ سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ مگر ایک بڑا مسئلہ فضلے کو اکھٹا اور ان کی ری سائیکلنگ کے لیے مطلوب بنیادی ڈھانچے کی تعمیرات کا ہے۔ صنعت اس بات پر متفق ہے کہ ری سائیکلنگ سے جڑی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مل کر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اب چیلنج یہ ہے کہ اس کام کو انجام کیسے دیا جائے؟ چنانچہ اس حوالے سے قانون سازی ہونا ضروری ہے کیونکہ قانون کی غیر موجودگی میں لوگ فضلے کے پائیدارانہ استعمال کو سنجیدہ لیں گے اور نتیجتاً صنعت بھی اس کام کو انجام نہیں دے پائے گی۔

پڑھیے: پلاسٹک سے جان چھڑانے میں مجھے ہفتہ لگا، لیکن میں کامیاب ہوگئی!

'اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ تبدیلی راتو رات آجائے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔ ہمیں فضلے کے پائیدارانہ استعمال سے جڑے منصوبوں کے لیے قوانین، ضوابط اور ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو اس کام سے معاشی سرگرمی کے مواقع پیدا کرنے میں مدد فراہم کرسکیں۔'

اویس بن نسیم کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ یہ کام کسی ایک کے بس سے باہر ہے۔ ان کے مطابق 'ہم اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں مگر یہ کافی نہیں ہے۔ ہمارا کہنا تو بس یہ ہے کہ آئیے تمام اقسام کے فضلوں کو ایک ہی کوڑے دان میں پھینک کر ان کی افادیت گھٹانے کے بجائے ری سائیکلنگ کے قابل ٹھوس اور مائع فضلوں کو الگ الگ جمع کرکے مسئلے کے حل کی جانب پہلا قدم اٹھاتے ہیں تاکہ فضلے کو لینڈ فل سائٹ پر زمین برد نہ کیا جائے کیونکہ اس طرح ماحولیات سے جڑے مسائل سر اٹھاتے ہیں اور معاشی طور پر اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچتا۔

'نہ تو حکومت اور نہ ہی غیر سرکاری شعبہ فقط اپنے طور پر اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ اجتماعی اور مشترکہ کوششوں کا تقاضا کرتا ہے جس کے لیے صرف کھانے پینے کی چیزوں کے ڈبوں یا پلاسٹک ہی نہیں بلکہ ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کے مجموعی نظریے کو بدلنا ہوگا۔ مگر حکومت کو ایک ایسے انفرااسٹرکچر اور ماحول کی فراہمی کے لیے اپنا کردار کرنا ہوگا جس کے ذریعے سماجی اور ماحولیاتی سطح پر پائیدارانہ سوچ اور طرزِعمل کو تقویت مل سکے۔ مگر فضلے کو ٹھکانے لگانے سے متعلق قانون سازی اور ضابطہ کاریوں سے یقیناً غیرمعمولی تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔'

یہ تحریر 13 دسمبر 2021ء کو ڈان، دی بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں