پاکستان میں کورونا سے اموات کی تعداد عالمی شرح سے بہت زیادہ

19 دسمبر 2021
دستاویز کے مطابق ملک میں وبا سے 28 ہزار 870 اموات رپورٹ کی گئیں — فائل فوٹو / رائٹرز
دستاویز کے مطابق ملک میں وبا سے 28 ہزار 870 اموات رپورٹ کی گئیں — فائل فوٹو / رائٹرز

ماہرین صحت اگرچہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایشیا میں کورونا وائرس کم جان لیوا ثابت ہوا ہے لیکن عالمی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں وبا سے شرح اموات متعدد خطوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کورونا سے متعلق سائنسی ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ پاکستانیوں کی ہلاکتیں اس لیے ہوئیں کیونکہ انہوں نے کورونا کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث ہسپتالوں کا رخ کیا۔

انہوں نے ناقص صحت اور تشخیصی سہولیات کو بھی اموات کی زیادہ تعداد کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

ڈان کو دستیاب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی دستاویز کے مطابق پاکستان میں کورونا سے شرح اموات 2.24 فیصد ہے جو عالمی سطح پر 1.97 فیصد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پہلی مرتبہ کورونا سے 200 سے زائد اموات ریکارڈ

دستاویز کے مطابق ملک میں وبا سے 28 ہزار 870 اموات رپورٹ کی گئیں جن میں 61 فیصد مرد اور 39 فیصد خواتین شامل ہیں۔

دستاویز سے انکشاف ہوا کہ ملک میں کورونا سے کم سے کم عمر میں جس کا انتقال ہوا وہ دو ماہ کا بچہ تھا جبکہ زیادہ سے زیادہ عمر 100 سال زائد ہے جبکہ انتقال کرنے والوں کی درمیانی عمر 62 سال ہے۔

ملک میں وبا سے ہونے والی کُل اموات میں سے 78 فیصد کی عمر 50 سے زائد تھی، 69 فیصد کو پہلے سے صحت کے مسائل تھے جبکہ 91 فیصد ہسپتال داخل تھے جہاں وہ اوسطاً 6.6 روز تک زیر علاج رہے (ایک سے لے کر 173 روز تک)۔

اسی طرح ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے مریضوں میں سے 45 فیصد اوسطاً 3.2 روز تک وینٹی لیٹرر پر رہے (ایک سے لے کر 42 روز تک)۔

دستاویز سے واضح ہوتا ہے کہ صحت کے عملے میں 172 اموات ہوئیں جن میں سے 103 ڈاکٹرز، ایک میڈیکل کا طالب علم، 4 نرسز اور 64 پیرامیڈیکس تھے۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پاکستان میں وبا سے جان سے ہاتھ دھونے والے مریضوں کی تعداد عالمی شرح سے کئی گنا زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وبا: پاکستان میں 3 مئی کے بعد سب سے زیادہ 141 اموات رپورٹ

انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے پاکستان میں لوگ کووِڈ 19 کی وجہ سے ہسپتالوں میں نہیں جاتے بلکہ جب ان میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں تو ہسپتال جاتے ہیں، اس کے علاوہ ہمارے پاس جدید ترین صحت اور تشخیصی سہولیات کا فقدان ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے انتہائی نگہداشت کے یونٹس دباؤ میں رہے یا ان پر زیادہ بوجھ پڑا جس کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہوا‘۔

جب اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ پاکستان میں 100 فیصد وینٹی لیٹرز کبھی بھی استعمال نہیں ہوئے، تو ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ اٹلی اور فرانس میں ایک جیسے لوگ اور معاشی حالات ہیں، لیکن اٹلی میں زیادہ ہلاکتیں ہوئیں‘۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سردیوں میں دنیا بھر میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے کیونکہ موسم سرما میں ہر سال نمونیا سے 25 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں