سول جج پر ریپ کا جھوٹا الزام لگانے والی خاتون 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2021
جے آئی ٹی رپورٹ کے اجرا کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے جمشید کنڈی کی بطور جج معطلی منسوخ کردی تھی — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
جے آئی ٹی رپورٹ کے اجرا کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے جمشید کنڈی کی بطور جج معطلی منسوخ کردی تھی — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

پشاور: ضلع لوئر دیر کی عدالت نے گزشتہ ماہ سینیئر سول جج کے خلاف جنسی زیادتی کا جھوٹا الزام لگانے والی خاتون کو 3 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رحیم یار خان کی رہائشی خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ لوئر دیر کے سینیئر سول جج جمشید کنڈی نے ان کا سرکاری رہائش گاہ پر ریپ کیا جس کے بعد جج کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

تاہم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تفتیش کے بعد 3 دسمبر کو انہیں اس الزام سے بری کردیا تھا جس کے ایک روز بعد انہوں نے مقامی عدالت سے ضمانت حاصل کرلی تھی۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے اجرا کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے جمشید کنڈی کی بطور جج معطلی منسوخ کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: معطل ہونے والے سول جج تحقیقات میں ریپ کے الزام سے کلیئر قرار

چنانچہ منگل کو پولیس نے خاتون کو سینیئر سول جج عیسیٰ خان آفریدی کی عدالت میں پیش کیا اور 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

تاہم جج نے ملزمہ کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا اور ہدایت کی کہ خاتون پولیس افسر اور جیل افسر کی موجودگی میں ملزمہ سے تفتیش کی جائے۔

بالم بٹ تھانے نے جمشید کنڈی کی تحریری شکایت پر 19 دسمبر کو خاتون کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 419، 420، 389 اور 500 کے تحت فراڈ، شہرت کو بدنام کرنے کے لیے الزام لگانے اور اینٹی ریپ ایکٹ کی دفعہ 22 کے تحت پولیس کو غلط معلومات دینے کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔

اپنی شکایت میں سول جج نے کہا تھا کہ خاتون نے اپنے شریک ملزم عقیل نادر خان کے ساتھ مل کر ان کے خلاف جنسی زیادتی کے مقدمہ درج کرایا کیوں کہ وہ بلیک میل کر کے 15 تولہ سونا ہتھیانا چاہتے تھے۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا: ریپ کے مقدمے میں گرفتار سینئر سول جج معطل

شکایت گزار کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے مطالبہ پورا کرنے سے انکار کیا تو دونوں نے ان پر خاتون کے ریپ کا الزام لگادیا۔

جمشید کنڈی کا مزید کہنا تھا کہ مرکزی ملزمہ نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام لگاتے ہوئے اپنی غلط شناخت بتائی اور 27 نومبر کو جج کے سامنے بیان دیتے ہوئے بھی غلط شناخت کا استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزمہ نے ان پر بے بنیاد الزام لگا کر 2 دہائیوں سے سرکاری نوکری کے بعد کمائی گئی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

پولیس کی تفتیشی رپورٹ دیکھنے کے بعد عدالت نے جج کے خلاف مقدمہ منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم اپنی آرڈر شیٹ میں انہوں نے اس کیس کو سنبھالنے کے پولیس کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ پولیس کے رویے میں ’نام نہاد‘ شکایت کنندہ کی جانب جھکاؤ نظر آتا ہے جس کی بہتر وجہ وہی جانتے ہوں گے۔

جج نے مزید کہا کہ یہ کیس، ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر اس کی منسوخی کے لیے کیس فائل جمع کرانے تک مقامی پولیس کے کردار پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیہون: چیمبر میں لڑکی کا 'ریپ' کرنے والا جوڈیشل مجسٹریٹ معطل

آرڈر شیٹ کے مطابق شکایت گزار نے حاضر سروس سینیئر جج پر ریپ، بھتے اور فراڈ کا الزام لگاتے ہوئے اپنی جعلی شناخت استعمال کی لیکن مقامی پولیس نے بھی ان کی شناخت کی تصدیق نہیں کرائی۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس نے اس الزام کی سچائی کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ اس کے بجائے ملزم کو گرفتار کرلیا جس سے نہ صرف ضلعی عدلیہ بلکہ پوری انتظامیہ کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔

جج نے مزید کہا کہ اگر مقامی پولیس ملزم عدالتی افسر کی گرفتاری سے قبل شواہد اکٹھے کرنے کی زحمت کر لیتی تو عدلیہ کو شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

تبصرے (0) بند ہیں