بھارت: 'نفرت انگیز تقاریر'، ہندوتوا رہنماؤں کی مسلمانوں کے قتل عام کی ہدایات

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2021
بھارت کے سخت گیر ہندوجماعتوں کے رہنماؤں نے نفرت انگیز تقاریر کیں—فوٹو: ہندوتوا واچ ان
بھارت کے سخت گیر ہندوجماعتوں کے رہنماؤں نے نفرت انگیز تقاریر کیں—فوٹو: ہندوتوا واچ ان

بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعتوں کے تین روزہ اجتماع میں ‘نفرت انگیز تقاریر’ کے دوران ملک میں اقلیتوں کے خاتمے ، خصوصاً 20 کروڑ آبادی کی حامل مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کی کئی رپورٹس میں انتہاپسند جماعتوں کے رہنماؤں کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ ملک میں نفرت انگیز تقاریر کا ایک اور سلسلہ حالیہ اجتماع میں دیکھا گیا۔

مزید پڑھیں: بھارت: مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات کی تحقیقات کرنے والے دو وکلا کیخلاف مقدمہ درج

دی کوئنٹ نے رپورٹ میں بتایا کہ ‘نفرت انگیز تقاریر کے اجتماع’ کے انتظامات ہندوتوا رہنما یاتی نرسنگھانند نے کیے تھے اور یہ اجتماع اترکھنڈ کے مذہبی شہر ہریدوار میں 17 دسمبر سے 19 دسمبر کے درمیان منعقد ہوا تھا جہاں کئی رہنماؤں نے اقلیتوں کو مارنے اور ان کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کی ہدایت کی۔

رپورٹ کے مطابق نرسنگھانند نے کہا کہ ‘معاشی بائیکاٹ کارآمد نہیں ہوگا، ہندو گروپس کو اپنے آپ کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے، تلواریں صرف اسٹیج پر ہی اچھی لگتی ہیں، یہ جنگ وہ جیتیں گے جو بہتر اسلحے سے لیس ہوں گے’۔

دی پرنٹ میں اکتوبر میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق نرسنگھانند پر متعدد مرتبہ مسلمان برادری کے خلاف مذہبی منافرت بھڑکانے کا الزام ہے۔

این ڈی ٹی وی نے رپورٹ میں بتایا کہ ہندو رکشاسینا کے صدر سوامی پرابودھانند گری نے کہا کہ ‘میانمار کی طرح، ہماری پولیس، ہمارے سیاست دانوں، ہماری فوج اور ہر ہندو کو اسلحہ اٹھانا چاہیے اور صفائی ابھیان کرنا چاہیے، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: مودی کی کامیابی، بھارت کو ’ہندو ریاست‘ کی شناخت دینے کا مشن مکمل؟

سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا کے سیکریٹری جنرل سادھوی اناپرنا نے بھی نسل کشی کے لیے اسلحے اور اکسانے کا مطالبہ کیا۔ وائر نے ان کی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ‘اسلحے کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے، اگر آپ ان کی آبادی ختم کرنا چاہتے ہیں، تو پھر انہیں مار دیں، قتل کرنے کے لیے تیار ہیں اور جیل جانے کو بھی تیار ہیں، پھر ہم فاتح ہوں گے اور جیل جائیں گے’۔

رپورٹ کے مطابق مذہبی رہنما سوامی آنندسواروپ نے گلیوں میں اشیا فروخت کرنے والے مسلمانوں کو نشانے بنانے کی مثال بھی دی اور کہا کہ ‘جس گلی میں ہم رہتے ہیں، ہر صبح مجھے بڑی داڑھی کے ساتھ ایک ملا نظر آتا تھا اور آج کل انہوں نے داڑھی پر رنگ چڑھایا ہوا ہے، یہ ہریدوار مہاراج ہے جہاں کوئی مسلمان خریدار نہیں ہے تو انہیں اٹھا کر پھینک دو’۔

وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ایشوینی اپادھیے اور بی جے پی ماہیلا مورچا کے رہنما ادیتا تیاگی نے تین روزہ اجتماع میں شرکت کی اور حکمران جماعت کی جانب سے اس اجتماع کو سیاسی طور پر توازن بخش دیا۔

اپادھیے نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ تین روزہ ایونٹ تھا اور میں وہاں ایک دن کے لیے موجود تھا اور اس دوران بمشکل 30 منٹ تک اسٹیج میں رہا تھا اور آئین کے بارے میں بات کی تھی، مجھ سے پہلے اور بعد میں لوگوں نے کیا باتیں کیں، اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں’۔

مزید پڑھیں: بھارت: آسام میں پولیس اور صحافی کا ایک شخص پر تشدد، ویڈیوز وائرل ہونے پر غم و غصہ

سوشل میڈیا پر گزشتہ کئی دنوں سے اس اجتماع کی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں اور اس پر کئی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔

آل اندیا ترینامول کانگریس کے قومی ترجمان ایکٹ گوخلے کا کہنا تھا کہ جمعرات کو انہوں نے پولیس اسٹیشن میں اس اجتماع کے خلاف شکایت درج کروا دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘منتظمین اور مقررین کے خلاف 24 گھنٹوں میں ایف آئی آر کے اندراج میں ناکامی پر جوڈیشل مجسٹریٹ کو درخواست دی جائے گی’۔

انڈین نیشنل کانگریس کے شعبے آل انڈیا پروفیشنلز کانگریس نے ہندوتوا رہنماؤں کی جانب سے مذہبی شہر ہریدوار میں نفرت انگیز تقاریر پر مشتمل اجتماع میں دیے گئے بیانات کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ ‘کیا یونین آف انڈیا اور دیگر ادارے اس حوالے سے بدستور خاموش تماشائی بنے رہیں گے’۔

تبصرے (0) بند ہیں