سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا بل پیش

17 جنوری 2022
چیئرمین سینیٹ نے مذکورہ بلوں کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیج دیا---فائل/فوٹو: اے پی پی
چیئرمین سینیٹ نے مذکورہ بلوں کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیج دیا---فائل/فوٹو: اے پی پی

اپوزیشن جماعتوں نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا بل اور سپریم کورٹ میں سنیارٹی کی بنیاد پر ججوں کی تعیناتی کے لیے ترامیم سینیٹ میں پیش کردیا۔

جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کابل پنجاب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر رانا محمودالحسن الحسن نے پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ

چیئرمین سینیٹ نے جنوبی پنجاب کے حوالے سے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔

اس موقع پر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملتان میں جنوبی پنجاب کے سیکریٹریٹ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور بہاولپور میں بھی سیکریٹریٹ کی جگہ کی نشاندہی کردی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پر ہم سیاست سے ہٹ کر اور مل کر آگے بڑھیں، دیگر جماعتیں اس معاملے پر ہمارا ساتھ دیں اور یہ قدم وفاق کو مضبوط کرے گا۔

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم نے صوبے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ حکومت نے کہا ہے کہ ہم نے سیکریٹریٹ بنا دیا ہے، صوبہ بنے گا تو دارالحکومت بنانا ہمارا اور عوام کا کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دارالحکومت نہیں چاہیے، ہم نے صوبہ اور وزیراعلی کا مطالبہ کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) ہمارا ساتھ دے ہم آگے بڑھتے ہیں، اس کے لیے آئینی ترمیم اور قرارداد کی ضرورت ہے، اس لیے تمام جماعتیں ساتھ دیں تو مل کر آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔

سپریم کورٹ میں سنیارٹی کی بنیاد پر تعیناتی کیلئے ترمیم پیش

پی پی پی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے سینیٹ میں عدلیہ سے متعلق مختلف آرٹیکلز میں آئین میں ترمیم کا بل پیش کیا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ صدر سپریم کورٹ کے سینیر ترین جج کو چیف جسٹس تقرر کرتا ہے، ایک جج کو سپریم کورٹ میں جج تعینات کرنے کا کیا طریقہ کار ہو گا، اس حوالے سے آئین خاموش ہے۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس سے سپریم کورٹ کیلئے نامزدگی کا طریقہ کار طے کرنے کی درخواست

انہوں نے کہا کہ ملک کی 5 ہائی کورٹس ہیں، ان کے ججوں کی سپریم کورٹ میں ترقی یا تعیناتی کا کوئی طریقہ کار ہو، اس حوالے سے حالیہ دنوں میں کافی بحث رہی ہے۔

ترمیم میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ہائی کورٹس کے ججوں کی تعیناتی سینیارٹی کے حساب سے کی جائے، ہائی کورٹ کے سینیر جج کو ان کی تاریخ تعیناتی یعنی سینیارٹی کے حساب سے سپریم کورٹ بھیجا جائے۔

فاروق ایچ نائیک کی جانب پیش ترمیم میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک ہی دن ججوں کی ہائی کورٹ میں تعیناتی ہو تو تاریخ پیدائش کے حوالے سے عمر میں بڑے جج کو سپریم کورٹ بھیجا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹس میں قائم مقام جج لگانے کا اختیار صدر کے پاس ہے لیکن ہائی کورٹ میں قائم مقام جج یا ایڈہاک جج لگانے کا معاملہ بھی پارلیمانی کمیٹی برائے ججز کے سپرد کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ججوں کے از خود نوٹس کی صورت میں اپیل کا حق دیا جائے اور اپیل کا فیصلہ 60 دنوں میں کیا جائے۔

مزید پڑھیں: عدالت عظمیٰ میں جج کے تقرر کا معاملہ: بار کونسلز آج یوم سیاہ منائیں گی

پی پی پی سینیٹر کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال ہے اور سپریم کورٹ کے جج کی 65 سال ہے، ہائی کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ عمر بھی 65 سال کی جائے۔

سینیٹ میں پیش کی گئی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے باہر جانے پر سینئیر ترین جج ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس ہو گا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں طویل عرصے تک فیصلے نہیں ہوتے، سپریم جوڈیشل کونسل 90 دن کے اندر ججوں کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ کرے۔

وزیرپارلیمانی امور علی محمد خان نے اس حوالے سے کہا کہ وزارت ان ترامیم کی حمایت نہیں کرتی، ان ترامیم کے لیے سیاسی اونرشپ لینا ہوگی، اس طرح یہ چیز جب پارلیمانی کمیٹی کے پاس آئے گی تو اسے نمٹانے کا طریقہ کار طویل ہو جائے گا۔

بعد ازاں چئیرمین سینیٹ نے ترامیم متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں