بھارت میں ’چہرے کی پہچان کا نظام‘ عدالت میں چیلنج

20 جنوری 2022
یہ اپنی نوعیت کا بھارت میں پہلا کیس ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ اپنی نوعیت کا بھارت میں پہلا کیس ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارتی شہر حیدر آباد میں لاک ڈاؤن کے دوران ایس کیو مسعود کو پولیس کی جانب سے سڑک پر روکا گیا اور چہرے سے ماسک ہٹانے کا کہا گیا اور پھر بغیر کوئی وجہ بتائے ان کے اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی تصویر لی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اپنی تصاویر کے استعمال سے متعلق پریشان ایس کیو مسعود نے شہر کے پولیس چیف کو قانونی نوٹس بھیجا، لیکن کوئی جواب نہ ملنے پر انہوں نے گزشتہ ماہ تلانگانا ریاست کی جانب سے چہرے کی پہچان کے نظام کے استعمال کے خلاف کیس کردیا، یہ اپنی نوعیت کا بھارت میں پہلا کیس ہے۔

38 سالہ ایس کیو مسعود نے تھومسن رائٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ بحیثیت ایک مسلمان اور پولیس کی جانب سے اکثر نشانہ بننے والے اقلیتی گروپ کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے مجھے خدشات ہیں کہ میری تصویر کو غلط تصویر کے ساتھ شناخت کیا جاسکتا ہے اور مجھے ہراساں کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ میرے پرائیسی رائٹس سے متعلق معاملہ ہے اور میری تصویر کیوں لی گئی اور اس کو کس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، کون اس تک رسائی رکھتا ہے اور کس طرح سے یہ محفوظ ہے، یہ سب جاننا ہر شخص کا حق ہے۔

ایس کیو مسعود کی درخواست کو جنوبی ریاست میں ایک ٹیسٹ کیس کے طور دیکھا جارہا ہے کیونکہ چہرے کی پہچان کا نظام پورے ملک میں نافذ کیا جارہا ہے، جبکہ ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نظام پرائیویسی اور دیگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کا چہروں کی شناخت کیلئے دنیا کا سب سے بڑا نظام بنانے کا اعلان

دلچسپ بات یہ ہے کہ چہرے کی پہچان کی ٹیکنالوجی ہر چیز کے لیے استعمال کی جارہی ہے، بند موبائل فون کو کھولنے سے لے کر ایئرپورٹ پر چیکنگ تک، کسی بھی شخص کی ڈیٹابیس میں موجود تصویر کے ساتھ تصدیق کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جاتا ہے۔

بھارتی حکومت، جو چہرے کی پہچان کا دنیا کا سب سے بڑا نظام پورے ملک میں لانے جارہی ہے، کا کہنا ہے کہ یہ نظام ملک میں پولیس کی شدید کمی کے باوجود جرائم کو روکنے اور گمشدہ بچوں کی تلاش کے لیے ضروری ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ نظام اکثر گہری رنگت والے لوگوں اور خواتین کی صحیح شناخت میں ناکام ہوجاتا ہے، جبکہ بھارت میں ڈیٹا پروٹیکشن لا کی غیر موجودگی میں اس کا استعمال مسائل کا باعث ہوسکتا ہے۔

دہلی میں موجود ڈیجیٹل رائٹس گروپ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن (آئی ایف ایف) کی رہنما انوشکا جین نے کہا کہ بھارت میں ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اسی بنیاد پر دن کے 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن نگرانی ضروری اور ہمارے لیے اچھی ہے۔

آئی ایف ایف میں ایسوسی ایٹ وکیل، جنہوں نے یہ پٹیشن تیار کی ہے، نے کہا کہ اس تصور کو چیلنج کرنا بہت اہم ہے اور اس طرح عدالتی کیسز عوام میں آگاہی دینے میں مدد دیں گے، زیادہ تر لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ان کی نگرانی کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چہرے کی شناخت: جاپان کی مدد سے سسٹم کی تنصیب

مکمل نگرانی

سی سی ٹی وی کیمرے دنیا بھر میں عام نظر آنے لگے ہیں، جبکہ گزشتہ سال کے آخر تک ایک ارب کیمرے لگانے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

کمپیری ٹیک نامی ویب سائٹ کے مطابق چینی شہروں کے ساتھ حیدر آباد اور دہلی شہر دنیا میں سب سے زیادہ سی سی ٹی وی کیمروں والے شہر ہیں۔

ریاست تلانگانا میں 6 لاکھ کیمرے ہیں جن میں سے زیادہ تر دارالحکومت حیدر آباد میں ہیں اور پولیس اپنے موبائل فون اور ٹیبلٹ پر تصاویر لینے اور ان کو اپنے ڈیٹابیس سے شناخت کرنے کے لیے ایپلی کیشن کا استعمال کر سکتی ہے۔

گزشتہ سال شائع کی گئی ایمنسٹی انٹرنیشنل، آئی ایف ایف اور انسانی حقوق گروپ آرٹیکل 19 کی ریسرچ کے مطابق پولیس، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کی جانب سے نصب کیے گئے نظام کے ساتھ یہ ریاست دنیا کی سب سے زیادہ نگرانی کی جانی والی جگہ ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مصنوعی ذہانت اور بگ ڈیٹا ریسرجر میٹ محمودی کا کہنا تھا کہ حیدر آباد مکمل طور پر نگرانی کیے جانے والا شہر بننے کے کنارے پر ہے جہاں مائیکروسافٹ، ایمیزون اور آئی بی ایم سمیت کئی عالمی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے بھارتی ہیڈکوارٹرز ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک اکاﺅنٹ اب چہرے سے ان لاک ہوں گے

انہوں نے کہا کہ یہ تقریباً ناممکن ہے کہ آپ سڑک پر بغیر چہرے کی شناخت کے رسک کے بغیر چل سکیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ نظام احتجاج کے دوران پولیس کی جانب سے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ مسلمانوں کے حقوق، نچلی ذات کے دلت، مقامی آدی واسی آبادی، خواجہ سرا اور تاریخی طور پر پسے ہوئے دیگر طبقات خاص طور پر اس نگرانی سے خطرے میں ہوں گے۔

ایس کیو مسعود کا کیس جو اس سال کے آواخر میں سماعت کے لیے مقرر ہے میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ تلانگانا میں چہرے کی شناخت کے نظام کا استعمال غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

فائل اپیل میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ یہ نظام غیر ضروری اور غیر مناسب ہے اور اس میں اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے تحفظ کی کمی ہے۔

پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ اس سسٹم کے مبینہ فوائد جیسے بہتر پولیسنگ جن کو ابھی ثابت ہونا ہے ان کی بنیاد پر اس کی غیر قانونیت ختم یا جائز نہیں کی جاسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک پر ایسی پوسٹس کرنا ہوسکتا ہے نقصان دہ

دنیا کے کچھ حصوں میں چہرے کی شناخت کے استعمال کے خلاف دباؤ بڑھ رہا ہے، مائیکروسافٹ اور ایمیزون سمیت کمپنیاں پولیس کو ٹیکنالوجی کی فروخت کو ختم یا روک رہی ہیں اور یورپی یونین اس کی فروخت پر 5 سال کی پابندی پر غور کر رہی ہے۔

بھارت میں طلبہ، بلدیاتی ملازمین اور اقلیتی برادریوں کی طرف سے مزاحمت بڑھ رہی ہے کیونکہ مزید خدمات آن لائن ہو رہی ہیں اور سرکاری ایجنسیوں اور کمپنیوں کو روزمرہ کے کاموں کو انجام دینے کے لیے ذاتی ڈیٹا اور لوکیشن ٹریکنگ ایپس کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈیٹا پروٹیکشن سے متعلق بنایا گیا قانون حکومتی ایجنسیوں کو قومی سلامتی کے مقاصد کے لیے کافی استثنیٰ دیتا ہے۔

ایس کیو مسعود، جو حیدر آباد کے رہائشیوں کی تصاویر لینے والے سی سی ٹی وی کیمروں اور پولیس افسران سے اب خوب واقف ہیں، چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی چہرے کی شناخت کے خطرات کو پہچانیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے اس پر کافی پیسے خرچ کیے ہیں مگر پھر بھی لوگ نہیں جانتے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے، اس نظام کا غلط استعمال کیسے ہو سکتا ہے اور یہ کیسے ان کی پرائیویسی کا غلط استعمال کرتا ہے، ہم روز اپنی پرائیویسی کے تحفظ کی لڑائی ہار رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں