دوسرا حصہ لکھنے میں جو تاخیر ہوئی اس کے لیے معذرت۔ پیٹ اسکرین سے لگا ہے جو پورا وقت مانگتا ہے اور کامران اصدر علی کی کتاب ’سرخ سلام‘ پر جو پہلا بلاگ لکھا تھا اس پر جس بات کا خدشہ تھا وہی ہوا۔

بیشتر زبانی اور تحریری ردِعمل میں ناخوشی بلکہ ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ کہا گیا کہ 20 سال کی محنت، درجنوں بین الاقوامی اداروں اور سیکڑوں کامریڈوں اور دانشوروں کی دنیا بھر میں خاک چھاننے کے بعد پہلی بار پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے عروج و زوال پر جو تخلیقی کام سامنے آیا ہے اس پر لندن میں ایک خاتون کی جانب سے کامریڈوں کی شراب نوشی کے بارے میں رائے پر لکھتے ہوئے اسے نظر انداز بھی تو کیا جاسکتا تھا۔

اب بحث بلکہ کج بحثی کے لیے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ برسوں کی ریاضت اور شہر شہر مسافت سے لکھی جانے والی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ میں ایک ایسے کامریڈ کی بیگم کی رائے کو جو 1955ء میں ملک چھوڑ بیٹھے تھے، سارے پاکستان کے کمیونسٹوں کے بارے میں ایسی بھپتی پر صادر کرنے کی کیا ضرورت تھی جو طویل عرصے سے ہمارے دائیں بازو کا سب سے بڑا ہتھیار اور بیانیہ رہا ہے۔

سوانح اور خاکہ نگاری کے لیے ضروری ہے کہ آپ جس پر لکھ رہے ہوں اس سے بالمشافہ مکالمہ کریں یا پھر اس کی پوری شخصیت کے ساتھ آگاہی بھی رکھتے ہوں۔ اسی طرح کسی پارٹی اور ادارے کی تاریخ و تحقیق لکھتے ہوئے جو لوگ اس پارٹی یا ادارے کا حصہ اور اس کے سرد و گرم میں ساتھ رہے ہوں، ان سے طویل نشستوں میں مکالمے کیے بغیر اس پارٹی اور ادارے سے انصاف نہیں ہوسکتا۔

کامران اصدر علی کی کتاب سرخ سلام کا اردو ترجمہ
کامران اصدر علی کی کتاب سرخ سلام کا اردو ترجمہ

کمیونسٹ پارٹی پر تحقیق تو یوں بھی ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے سے زیادہ مشکل مرحلہ ہے کہ 1948ء میں پاکستان میں اس کی پیدائش ہوئی تو اس کے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر سمیت سارے مقامی یا ہندوستان سے آنے والے کامریڈ زیرِ زمین تھے۔

کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگنے کا بنیادی سبب پنڈی سازش کیس تھا جس کے بارے میں شاعر بے مثال فیض احمد فیض نے شاعرانہ تعلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا تھا

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

مگر یقیناََ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اور فوجی افسران سے ایک سے زائد ملاقاتیں محض کاک ٹیل پارٹیاں تو تھیں نہیں۔ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اس میں یہ طے ہوا کہ سید سجاد ظہیر پنڈی جاکر جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات کریں گے جو کشمیر جنگ میں مسلم لیگی حکومت کی پالیسی سے سخت ناراض تھے۔

سید سجاد ظہیر—تصویر: ٹوئٹر
سید سجاد ظہیر—تصویر: ٹوئٹر

یہ ناراضگی بجا تھی کیونکہ جنرل اکبر خان کی قیادت میں فوجی افسران اور قبائلیوں کے جتھے سری نگر سے محض 5 کلومیٹر دُور رہ گئے تھے جہاں سے سری نگر شہر کی روشنیاں انہیں دستک دینے کی دعوت دے رہی تھیں۔ اب یہ ایک متنازعہ موضوع ہے کہ پاکستان کی نوزائیدہ حکومت اس مہم جوئی کی متحمل ہوسکتی تھی یا نہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جواہر لعل نہرو جیسا اسٹیٹ مین اقوامِ متحدہ کو دہائی دے رہا تھا اور کشمیر کا مہاراجہ دہلی بھاگ چکا تھا۔

مجاہدِ اوّل اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عبد القیوم نے ایک ملاقات میں اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروانے کا وہ پہلا اور آخری موقع تھا مگر انگریز فوجی جنرل گریسی نے اس وقت کی سویلین اور فوجی قیادت پر زور دیا کہ جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھی فوجی افسران اور قبائلیوں کو کشمیر محاذ سے واپس بلالیں۔

اس سے قبل 1948ء میں پارٹی کی کلکتہ کانگریس میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے تعلق رکھنے والے انتہائی نستعلیق کامریڈ سجاد ظہیر لاہور جاکر پارٹی تشکیل دیں گے مگر لاہور پہنچنے سے پہلے ہی سجاد ظہیر کے وارنٹ گرفتاری نکل گئے۔ یوں لاہور میں انہوں نے زیرِ زمین رہ کر ہی ہندوستان سے آنے والے اور مقامی کامریڈوں کے ذریعہ ایک مختصر سے عرصے میں پارٹی کے مزدوروں، کسانوں، صحافیوں، طلبہ اور خواتین ما مؤثر کیڈر تیار کیا۔

مسلم لیگ سے منحرف پنجاب کی اشرافیہ کے سرکردہ رہنما میاں افتخار الدین، برِصغیر پاک و ہند میں اپنی شاعری سے مقبولیت حاصل کرنے والے فیض احمد فیض اور پھر بعد میں امریکا سے آنے والے سید سبط حسن سے سجاد ظہیر کے دیرینہ ذاتی اور نظریاتی تعلقات تھے۔ پارٹی نے سال، دو سال میں ایک منظم جماعت کی حیثیت سے وطن عزیز میں اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا تھا۔

جنرل اکبر خان
جنرل اکبر خان

جنرل اکبر خان اور ان کے ساتھیوں کی سوچ بلکہ غصہ سمجھ میں آتا ہے مگر کمیونسٹ پارٹی کی سنجیدہ قیادت کس طرح ملکی اور بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورتحال میں اس مہم جوئی کے لیے آمادہ ہوئی، اس کی روداد کامران اصدر نے تفصیل سے بتائی ہے۔

یہ بات بھی بہرحال اپنی جگہ تعجب انگیز لگتی ہے کہ کمیونسٹ پارٹی اور فوجی افسران کی ترتیب دی گئی اس سازش کو امریکا کی آشیرباد سے ابھرنے والی پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کس طرح نظر انداز کردیتی۔

پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب ’فیض: شاعری اور سیاست‘ میں پروفیسر وارث میر لکھتے ہیں کہ 'وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو دورہ روس کی دعوت پر ایران میں برطانوی سفیر اور لندن میں کامن ویلتھ کے سیکریٹری کو سخت پریشانی ہوئی اور انہوں نے فارن آفس کو قائل کیا کہ وہ امریکا پر دباؤ ڈالیں اور وہ وزیرِاعظم پاکستان کو دورہ امریکا کی دعوت دیں۔ اس سے پہلے کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ تک برطانوی فائل پہنچتی، واشنگٹن کے دورے کے دوران پاکستان کے وزیرِ مالیات غلام محمد نے اس مسئلے کو یوں حل کیا کہ انہوں نے خود ہی پاکستان کے وزیرِاعظم کو دعوت نامہ بھیجنے کی تجویز قبول کرلی'۔

پروفیسر ملک مزید لکھتے ہیں کہ میجر جنرل شیر علی پٹودی نے اپنی کتاب The story of soldiers and soldiering میں لکھا ہے کہ 'ایوب خان نے لندن کے دورے کے دوران اپنے مستقبل کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے وقت یہ مطلع کیا تھا کہ اس فوج نے بہت عظیم کردار سرانجام دینا ہے اور آج کی صورتحال میں کمانڈر انچیف دراصل وزیرِاعظم سے زیادہ اہم شخصیت ہے'۔

ایوب خان اپنی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ کے صفحہ 38 میں لکھتے ہیں کہ 'انگریز جنرل گریسی نے کہا تھا کہ فوج میں ایک ینگ ترک پارٹی موجود ہے۔ ان کا واضح اشارہ جنرل اکبر خان کی طرف تھا، جو آفیسرز میس میں کُھل کر جنگ کشمیر کے حوالے سے اپنے سے بڑے جرنیلوں اور لیاقت حکومت پر تنقید کرتے تھے'۔

پاکستانی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل گیریسی، وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے ساتھ—تصویر: اسکندر مرزا آرکائیوز
پاکستانی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل گیریسی، وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے ساتھ—تصویر: اسکندر مرزا آرکائیوز

اس سارے پس منظر کو سامنے رکھیں تو یہ واضح ہوتا ہے پنڈی سازش کیس کے دونوں فریق یعنی جنرل اکبر خان اور کمیونسٹ پارٹی کی قیادت شاید بہت معصوم تھی (جو کہ نہیں تھی) اور اس سے آگاہی نہیں رکھتی تھی کہ تقسیمِ ہند اور پاکستانی ریاست کی تشکیل کے وقت ہی برطانیہ اور امریکا اس کے مستقبل کے کردار کا فیصلہ کرچکے تھے۔

کمیونسٹ پارٹی کے پنڈی سازش کیس سے متعلق قیدیوں کی رہائی اور خاص طور پر پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر کے 1955ء میں ملک سے چلے جانے کے بعد بظاہر پارٹی کا ڈھانچہ اگر تھا بھی تو اس کا سراغ کامران اصدر علی اپنی اس تحقیق میں نہیں دے سکے۔

حسن ناصر کی شہادت کا ذکر ان کی کتاب میں بڑے مؤثر انداز میں ملتا ہے مگر یہ انکشاف کہ 'مشہور ٹریڈ یونین لیڈر طفیل عباس اس وقت پارٹی میں اتنے اہم تھے کہ حسن ناصر نے ان کی ہدایت کو نظر انداز کیا جس کے سبب ان کی سرگرمیاں خفیہ ایجنسیوں سے مخفی نہ رہ سکیں اور ان کی گرفتاری کا باعث بنیں'، ہم جیسے بائیں بازو کے طالبِ علم کے لیے یقیناً یہ بریکنگ نیوز ہے کہ حسن ناصر طفیل عباس پارٹی کے ڈسپلن میں تھے۔

حسن ناصر
حسن ناصر

کامران اصدر علی اپنی دہائیوں کی تحقیق کے باوجود یہ بتانے میں کامیاب نہیں ہوسکے کہ پارٹی پر پابندی لگنے اور سجاد ظہیر کے بھارت جانے کے بعد پارٹی کا قائم مقام سیکریٹری جنرل کون تھا اور اگر مرکزی پارٹی، اس کا ڈھانچہ اور قائم مقام سیکریٹری کوئی نہیں بھی تھا تو سندھ، پنجاب اور صوبہ سرحد میں جو زیرِ زمیں پارٹی چلارہے تھے جن میں حسن ناصر اور طفیل عباس سب سے نمایاں تھے انہیں یہ اختیار کیسے ملا اور کس نے دیا؟

جاری ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Feb 13, 2022 09:30am
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سرخوں کو ایک کمیونسٹ پارٹی، جس کو اس علاقے میں کوئی مقبولیت نہیں ملنے والی تھی، بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر یہ سرخے، جو یقیناً بہت پرخلوص اور حبِ انسانی سے لبریز تھے، اگر ایک پارٹی بنالیتے جس پر کمیونسٹ کا لیبل نہ ہوتا اور وہ مرکزی دھارے میں اپنا فعال کردار ادا کرتی تو اس ملک اور تمام ہمسایہ ممالک کے لیے بہت بہتر ہوتا۔ یہ ایسی پارٹی بنا سکتے تھے جو حسبِ مخالف کا ایک بھرپور کردار ادا کرتی۔ جاگیر داروں سے ملک کو چھٹکارا دلواتی۔ وہ ایک ایسے نام کے ساتھ آتی کہ کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پاکستان کے عام لوگ بہت مذہبی خیال کے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کمیونسٹ کسی خدا کو نہیں مانتے تو ان کے لیے مخالفت کرنے کے لیے یہ ہی کافی ہے۔ ان لوگوں کے اپنے آپ کو کمیونسٹ کہلانے پر زور دینے سے غریب آدمی کا بہت نقصان ہوا ہے۔