پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا 7واں سیزن ملک کے سب سے بڑے کرکٹ میدان نیشنل اسٹیڈیم کراچی سے نکل کر اب ملک میں کرکٹ کے مرکز یعنی قذافی اسٹیڈیم لاہور پہنچ چکا ہے۔ اس سیزن کا ویسے ہی ایک لیول ہے، لیکن اب تو یہ اگلے لیول پر پہنچ رہا ہے۔

کراچی کے مقابلے میں نسبتاً سرد موسم میں کھیلے گئے کل کے میچ کی پہلی منفرد جھلک وہ کمنٹری باکس تھا، جو پاکستانی ٹرک آرٹ کے نمونے پر بنایا گیا ہے۔

کافی نئے پن کے باوجود ہمیں نتائج میں کوئی نئی چیز نظر نہیں آئی۔ ملتان بالکل پہلے ہی کی طرح پی ایس ایل کا ڈان بنا ہوا ہے کہ جسے ہرانا مشکل ہی نہیں ناممکن لگ رہا ہے۔ جبکہ پشاور زلمی نے گویا قسم کھائی ہوئی ہے کہ اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھنا۔


پچھلے میچ کا ری پلے


یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ معرکہ کراچی میں کھیلے گئے ملتان-پشاور مقابلے کا ری پلے تھا۔ کیسے؟ اس طرح کہ ٹاس پشاور نے ہی جیتا، ایک مرتبہ پھر پھر ہدف کے تعاقب کا فیصلہ کیا، وہی غلطیاں دہرائیں اور بالکل ویسے ہی شکست کھائی، بلکہ بہت بُری طرح ہارے۔

ملتان کے بنائے گئے 182 رنز کے جواب میں پشاور کی داستان شروع ہی میں تمام ہوچکی تھی، جب اسکور بورڈ پر 8 اوورز میں صرف 51 رنز موجود تھے اور 4 کھلاڑی آؤٹ تھے۔ گرتے پڑتے آخری اوور تک پہنچے جہاں پوری ٹیم 140 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔

ایک ایسی ٹیم جو پی ایس ایل تاریخ میں 4 مرتبہ فائنل کھیل چکی ہو، اس سے ہرگز ایسے کھیل کی توقع نہیں ہے۔ اگر زلمی کو آگے بڑھنا ہے تو انہیں اپنی غلطیوں پر قابو پانا ہوگا اور اگلے میچوں میں ان کا ازالہ کرنا ہوگا۔

وہ غلطیاں یہ ہیں کہ اوپنرز نہیں چل رہے۔ کامران اکمل اور حیدر علی اس میچ میں بھی ناکام ہوئے۔ ان کے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کرکے کچھ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پھر مڈل آرڈر میں شعیب ملک کے علاوہ کسی میں کوئی دم نظر نہیں آرہا۔ حسین طلعت، شین ردرفورڈ اور بین کٹنگ بھی مستقل اور فیصلہ کن کارکردگی نہیں دکھا پا رہے۔ یہاں لیام لوِنگٹسن کی آمد بہت اہم ہے۔

پشاور کو امید تھی کہ لیام لوِنگسٹن کی آمد سے بیٹنگ لائن اپ کو سہارا ملے گا۔ انہوں نے ایک جھلک دکھائی بھی اور چوتھے اوور میں شاہنواز ڈھانی کو ایک بھرپور چھکا رسید کیا، جسے کراچی کی زبان میں کہیں تو بھر کر مارا۔ لیکن یہ سب وقتی خوشیاں ثابت ہوئیں اور 15ویں اوور میں شعیب ملک کی وکٹ گرنے کے ساتھ ہی گویا میچ کا فیصلہ ہوگیا تھا کیونکہ صرف 6 اوورز میں 81 رنز کی ضرورت تھی اور کھیلنے والا کوئی خاص بلے باز بچا نہیں تھا۔

بہرحال، سیزن اب اس مرحلے تک پہنچ چکا ہے کہ جہاں ’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘ بس آنے ہی والا ہے۔ اس لیے جو بھی کرنا ہے، جلدی کرنا ہوگا۔


زلمی کی سب سے بڑی پریشانی


پشاور زلمی دیوار سے لگے ہوئے ہیں اور ان کے لیے سب سے پریشان کُن بات یہ ہے کہ انہیں آخری 3 شکستیں بہت بڑے مارجن سے ہوئی ہیں، جس سے ان کے نیٹ رن ریٹ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

وہ ملتان کے ہاتھوں پہلا مقابلہ 57 رنز سے ہارے تھے اور اب 42 رنز سے ہار گئے۔ یعنی اگر اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے معاملہ نیٹ رن ریٹ پر گیا تو پشاور کو باہر ہی سمجھیں۔ ہاں اگر وہ اپنے ماندہ 4 میچوں میں کوئی انہونی کر دکھائیں تو الگ بات ہے۔

پھر میدانِ عمل میں کارکردگی بھی تو دیکھیں، زلمی کے فیلڈرز نے 4 کیچ چھوڑے۔ بلاشبہ وہ مشکل کیچ تھے لیکن اس مرحلے پر کوئی غیر یقینی کارکردگی ہی پشاور کو واپس لاسکتی ہے۔ بالکل ویسی جیسی ملتان دکھا رہا ہے۔ زبردست بلے بازی، شاندار باؤلنگ اور سب سے بڑھ کر ناقابلِ یقین کیچ، ملتان جس چیز کو ہاتھ لگا رہا ہے، وہ سونا بن رہی ہے۔


شان مسعود کی نرالی شان


یہ سوال اگر پی ایس ایل سیزن 7 کے آغاز سے پہلے کسی سے کیا جاتا کہ اس سال سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑیوں میں کون کون شامل ہوگا؟ تو بہت کم لوگ ہوتے جو شان مسعود کا انتخاب کرتے۔ ایک ایسا بلے باز جس پر ٹیسٹ بیٹسمین ہونے کی گہری چھاپ ہے، اب سیزن میں چھایا ہوا ہے۔

شان 6 میچوں میں 57 کے اوسط اور 148 سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 343 رنز بنا چکے ہیں جس میں 3 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ان میں 83، 88 اور اب 68 رنز کی اننگز بھی شامل ہیں۔


ملتان کا ترپ کا پتہ


جب 7ویں سیزن کے لیے ڈرافٹ چل رہے تھے تو سنگاپور سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی ٹم ڈیوڈ گولڈ کیٹیگری میں تھے لیکن بہت سے لوگ حیران رہ گئے کہ ملتان سلطانز نے انہیں پلاٹینم کیٹیگری میں منتخب کرلیا، یعنی اپنا پہلا انتخاب۔ یہ فیصلہ کتنا اہم ثابت ہوا، اس کا ہر گزرتے مقابلے کے ساتھ اندازہ ہو رہا ہے۔

جب 13ویں اوور میں ملتان کی پہلی وکٹ گری تو اسکور بورڈ پر صرف 98 رنز تھے۔ یہاں ٹم نے 18 گیندوں پر 34 رنز کی اننگ کھیلی۔ وہ سیزن میں اب تک 65 کے اوسط اور 207 کے ناقابلِ یقین اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنا چکے ہیں بلکہ رواں سال سب سے زیادہ چھکے لگانے کا ریکارڈ بھی انہیں کے پاس ہے۔ اس مقابلے میں بھی انہوں نے ثاقب محمود کو 17ویں اوور میں 3 کرارے چھکے رسید کیے۔


خوش دل، دل خوش کرتے ہوئے


پھر ملتان کو خوش دل شاہ بھی خوب راس آئے ہیں۔ بھلا کس نے سوچا تھا کہ خوش دل شاہ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والوں میں دوسرے نمبر پر ہوں گے؟ 6 میچوں میں ان کی 12 وکٹیں ہیں، ساتھ ساتھ کچھ اہم میچوں میں نازک ترین موقع پر طوفانی بلے بازی اور پھر شاندار کیچ۔

پاکستان میں اتنی عمدہ فیلڈنگ کرنے والے کھلاڑی بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خوش دل نے پشاور کے خلاف جب اپنی تیسری اور دن کی آخری وکٹ لی تو وہ بھی ایک شاندار کیچ کی بدولت تھی جو انہوں نے اپنی ہی گیند پر لیا۔ یہ بلاشبہ ٹورنامنٹ کے بہترین کیچوں میں سے ایک ہوگا۔


شاہنواز ڈھانی، کوئی تو روکو


دن کے 2 لمحات بہت ہی دلچسپ تھے اور دونوں ہی میں شاہنواز ڈھانی اہم کردار تھے۔ پہلے تو کامران اکمل کی ہٹ پر دوڑتے ہوئے محمد رضوان اور کیچ پکڑتے شاہنواز کے درمیان بُری طرح ٹکر ہوئی۔ بظاہر یہ بہت خطرناک تصادم تھا لیکن ملتان کے لیے ’سب اچھا‘ رہا کیونکہ نہ کیچ چھوٹا اور نہ کسی کو چوٹ پہنچی۔ اس پر مزید خوش خبری یہ کہ اسی اوور میں حیدر علی کی وکٹ بھی گئی اور پشاور کا توازن ایسا بگڑا کہ پھر وہ آخر تک سنبھل نہیں پایا۔

دوسرا لمحہ وہ تھا جب شاہنواز نے حسین طلعت کی وکٹ لی۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ عمران طاہر کی شاگردی میں ہیں لیکن آج تو وہ اپنے استاد سے بھی آگے نکل گئے۔ وکٹ لینے کی خوشی میں دوڑتے دوڑتے باؤنڈری لائن تک پہنچ گئے۔

ملتان کا ایک قدم اب اگلے مرحلے میں ہے اور وہ اپنے اعزاز کے دفاع کے لیے مکمل طور پر مستعد نظر آتے ہیں جبکہ پشاور کو ہر میدان میں جیتنا ہوگا، خاک سے پھر اٹھنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں