مشرقی یروشلم سے فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی پر پابندی عائد

01 مارچ 2022
اسرائیلی سپریم کورٹ نے کہا کہ زمین کے حقوق کے تعین تک فلسطینی خاندان یہودی آباد کار گروپ کو علامتی سالانہ کرایہ ادا کریں گے— فائل فوٹو: اے ایف پی
اسرائیلی سپریم کورٹ نے کہا کہ زمین کے حقوق کے تعین تک فلسطینی خاندان یہودی آباد کار گروپ کو علامتی سالانہ کرایہ ادا کریں گے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسرائیل کی سپریم کورٹ نے مشرقی یروشلم سے چار فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی پر پابندی عائد کردی۔

یہ جگہ شیخ جراح کے پڑوس میں واقع ہے جہاں یہودی آباد کار گروپوں نے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جسٹس اسحاق امیت نے تین ججوں کے پینل کے فیصلے میں لکھا کہ خاندانوں کو محفوظ کرایہ دار تسلیم کیا جائے گا اور زمین کے حقوق کے تعین تک یہودی آباد کار گروپ کو 2ہزار 400 شیکل(تقریباً 740 امریکی ڈالر) علامتی سالانہ کرایہ ادا کریں گے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے کب اور کیسے فلسطین پر قبضہ کیا، کتنی زندگیاں ختم کیں؟

مشرقی یروشلم کے الحاق شدہ علاقے میں رہنے والے چار خاندان ان جھڑپوں کا مرکز تھے جس نے گزشتہ سال مئی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 11 روزہ جنگ کو ہوا دی تھی۔

اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا لیکن اس اقدام کو زیادہ تر عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیا تھا۔

شیخ جراح یروشلم پر اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔

ذیلی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ یہودی آباد کار زمین کی ملکیت رکھتے ہیں لیکن فلسطینی خاندان اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق مانگ رہے تھے۔

منگل کے روز آنے والے فیصلے میں تین ججوں میں سے دو نے اپیل کا حق دیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوجیوں نے آبادکاروں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں پر تشدد کیا، این جی او

ان بستیوں کے مخالف یروشلم کے ایڈووکیسی گروپ کے کوآرڈینیٹر گال یانووسکی نے کہا کہ انہیں اپیل کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ صرف ایک ابتدائی فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تین ججوں میں سے دو نے فیصلہ کیا کہ وہ زمین کی ملکیت کے حوالے سے کوئی فیصلہ ہونے تک اس خاندان کو بے دخل کرنے پر پابندی عائد کر رہے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ اردن کے حکام نے 1954 میں اس علاقے کو کنٹرول کرنے والے فلسطینی خاندانوں کے لیے مکانات تعمیر کیے، اس کے بدلے میں ان رہائشیوں نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کی حیثیت سے دستبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

تاہم 1967 کے تنازع سے پہلے اردن کے حکام نے رہائشیوں کے زمینی حقوق کو ریکارڈ نہیں کیا تھا۔

یہودی گروپس نے اسرائیل کے قانون کا استعمال کرتے ہوئے اس جائیداد پر دعویٰ کیا جو کہ یہودیوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ 1948 کی جنگ میں اسرائیل کے قیام کے دوران کھو جانے والی یروشلم کی جائیداد واپس لے سکتے ہیں البتہ فلسطینیوں کو ایسا کوئی حق نہیں دیا گیا۔

اگست میں ان خاندانوں نے اسرائیل کی اعلیٰ عدالت کی طرف سے تجویز کردہ ایک سمجھوتے سے انکار کر دیا تھا جس میں انہیں اپنے گھروں کی اسرائیلی ملکیت کو تسلیم کرنے کے بدلے میں محفوظ کرایہ دار کے طور پر رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔

گال یانووسکی نے کہا کہ نئے فیصلے سے جائیداد کی حتمی حیثیت اسرائیل کی وزارت انصاف کے اندر ایک دفتر کے فیصلے کے تحت ہو گی۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی حکومت کی فلسطینیوں کی نسل کشی کو میمز میں تبدیل کرنے کی کوشش

فلسطینی خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل سمیع ارشاد نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ فیصلہ اہم تھا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ بے دخلی کو منسوخ کرتا ہے جبکہ ملکیت کے معاملے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ ملکیت کے بارے میں ماضی کے فیصلے لاگو نہیں ہوتے اور شیخ جراح کے رہائشی اپنی ملکیت پر بحث اور اسے اپنی ملکیت ثابت کر سکتے ہیں۔

مشرقی یروشلم میں تقریباً 3لاکھ فلسطینیوں کے ساتھ اب 2لاکھ سے زیادہ آباد کار رہتے ہیں اور وہاں یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیرقانونی تصور کیا جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Mar 01, 2022 11:52pm
امریکہ اور یورپ کے انسانی حقوق کے علمبردار سوئے ہوئے ہیں۔