لاہور ہائیکورٹ کا کمپنی کو کار خریدار کو 'زر تلافی' ادا کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2022
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس سہیل ناصر نے کہا کہ صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں کوششیں جاری ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس سہیل ناصر نے کہا کہ صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں کوششیں جاری ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ نے کنزیومر کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان میں کار بنانے والی ایک مشہور کمپنی کی جانب سے کی گئی اپیل خارج کردی جس میں کمپنی کو مینوفیکچرنگ خرابی کی وجہ سے خریداری کے 17 دن بعد آگ لگنے والی کار کے خریدار کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سہیل ناصر نے 18 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے کے آغاز میں لکھا کہ ایک آدمی کے لیے نئی گاڑی کا مالک بننے کا احساس پہلی گرل فرینڈ رکھنے کے احساس جیسا ہے، یہ احساس ایک الگ اور منفرد قسم کے جذبات سے متعارف کراتا ہے، یہ ایک ایسا احساس ہے جو آپ کو رات بھر جگا سکتا ہے، آپ کو ایک الگ طرح کی خیالی دنیا میں لے جاتا ہے لیکن جب آپ اس تعلق سے دور ہوتے ہیں تو آپ اسے اس طرح یاد کرتے ہیں جیسے صحرا بارش کو یاد کرتا ہے۔

جج کا اپنے فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ ایسا ہی صارف ملک اشفاق احمد (کمپنی کی اپیل میں مد مقابل) کے ساتھ ہوا جس نے انڈس موٹر کمپنی لمیٹڈ سے نئی ٹویوٹا کرولا ایکس ایل آئی خریدی، اپیل کرنے والے نے 15 جنوری 2010 کو اپنے مجاز ڈیلر کے ذریعے وہ کار خریدی لیکن یکم فروری کو 17روز کے بعد ہی فیوز باکس میں خرابی کی وجہ سے آگ لگنے کے باعث مکمل طور پر جلنے کی وجہ سے اس کار سے محروم ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ کا حکومت کو حق مہر کے حوالے سے نکاح نامے میں ترمیم کرنے کا حکم

ڈیرہ غازی خان کی مقامی کنزیومر کورٹ نے 29 مارچ 2014 کو خریدار کی شکایت پر کار کمپنی کو ہدایت کی کہ وہ اسے 10 فیصد سود کے ساتھ کار کی قیمت 12 لاکھ 69 ہزار روپے زرتلافی ادا کرے، عدالت کی جانب سے کمپنی کو وکیل کی فیس کی مد میں 25 ہزار روپے اور 10 فیصد سود کے ساتھ 5 ہزار روپے قانونی چارہ جوئی کے طور پر ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔

اپنے فیصلے میں جسٹس سہیل ناصر نے کہا کہ صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے پوری دنیا میں کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس موضوع پر بہترین قانون سازی دیکھی جاسکتی ہے۔

انہوں نے سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی اس تقریر کا حوالہ دیا جو 1962 میں کانگریس میں صارفین کے حقوق پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کی گئی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں صارف کو 'بادشاہ' کہا جاتا ہے لیکن ایسا بادشاہ جو تاج کے بغیر ہے جو اب تک صارفین کے حقوق سے متعلق مؤثر قانون سازی کا طویل انتظار کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: لاہور ہائی کورٹ نے اے سی، ڈی سی کی سزا معطل کردی

انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ پنجاب اس سلسلے میں چوتھا صوبہ تھا جس نے پنجاب کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005 کو نافذ کیا جبکہ تقریباً 11 سال تک زیر التوا رہنے کے بعد یہ بل 13 جنوری 2005 کو اسمبلی سے منظور کیا گیا۔

موجودہ کیس میں اپیل کنندہ کمپنی کی دلیل یہ تھی کہ جب گاڑی کو جواب دہندہ کار کے ذریعے واپس لایا گیا تو اس وقت اس کی جانچ ایک مکینک نے کی جس نے کہا تھا کہ آگ کسی تبدیلی کا نتیجہ تھی۔

تاہم جج کا کہنا تھا کہ ایک آزاد ماہر نے کار کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا تھا کہ ریلے اور فیوز باکس میں مینوفیکچرنگ کی کچھ خرابی تھی جو کار میں آگ لگنے کی حتمی وجہ تھی، جس کا مطلب ہے کہ کار ایکٹ کے سیکشن 5 کی تعریف کے مطابق کار خراب پروڈکٹ تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے مزید کہا کہ اس لیے کار کپنی کے خلاف کیس دائر کرنے والے مدعی نے بجا طور پر ریلیف کے لیے صارف عدالت سے رجوع کیا۔

ان ریمارکس کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ کے جج نے کار کمپنی کی اپیل خارج کرتے ہوئے صارف عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں