شام: کیمیائی حملوں میں 1300 افراد کی ہلاکت کا الزام

شائع August 22, 2013

نیو یارک میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور اس میں ہلاکتوں کے خلاف مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ فوٹو رائٹرز

بیروت: شام کے مرکزی اپوزیشن گروپ نے حکومت پر کیمیائی ہتھیار کا استعمال کرنے اور اس میں 1300 سے زائد افراد کی ہلاکت کا الزام عائد کیا ہے تاہم شامی حکومت نے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے الزامات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت طلب کر لی ہے۔

یاد رہے بدھ کو یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اہلکار 29 ماہ سے جاری تنازع کے دوران اس سے قبل کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیق کے حوالے سے شام میں موجود ہیں۔

نیو یارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے بعد ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والی کونسل کی صدر ماریہ کرسٹینا نے کہا کہ ہم وضاحت چاہتے ہیں کہ اصل میں ہوا کیا تھا اور صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کونسل سیکریٹری جنرل بان کی مون کے کرادر کو سراہتی ہے جنہوں نے اس معاملے کی غیر جانبدار اور مکمل تحقیقات کی ہدایت کر دی ہے۔

پندرہ ملکی باڈی نے الزامات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

مغربی حکومتوں نے نئے الزامات کی تحقیقات کیلیے انسپکٹرز کو فوری رسائی دینے کا مطالبہ کیا ہے، شام کے پرانے اتحادی روس نے بھی تحقیقات کیلیے آواز بلند کی ہے تاہم اس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ اشتعال انگیزی حزب اختلاف اور اس کی حمایت کرنے والوں کی جانب سے کی گئی ہے۔

باغیوں کی جانب سے ویڈیوز تقسیم کی گئی ہیں جس کی شفافیت کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی، ان ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ ڈاکٹرز اور اسپتال کا عملہ شدید زخمی بچوں کو امداد فراہم کر رہا ہے جبکہ اسپتال میں ہرجانب چیخ و پکار مچی ہوئی ہے۔

مزید ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ درجنوں افراد کی لاشیں زمین پر پڑی ہوئی ہیں جس میں زیادہ تعداد بچوں کی شامل ہے جن میں سے کچھ کو سفید کپڑے سے ڈھک دیا گیا ہے۔

کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی ابھی تک آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی اور حکومت کی جانب سے اس کی سختی سے مذمت بھی کی گئی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ ان الزامات کا مقصد ملک میں موجود اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے انسپکٹرز کے کام میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔

اپوزیشن ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے کیمیائی ہتھیاروں کے کئی حملے کیے جس میں سے ایک دمشق کے جنوب مشرقی علاقے معدمیات الشام میں کی گئی جبکہ دارالحکومت کے نواحی علاقوں میں مزید حملے بھی کیے گئے۔

یوٹیوب پر جاری کی گئی ویڈیو میں ایک اور باغی گروپ سیرین ریوولوشن جنرل کمیشن کو حکومتی افواج پر ٹاکزک گیس کے استعمال کے ذریعے بڑے پیمانے پر خون خرابے کا الزام عائد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ویڈیو کے ذریعے جاری کیے گئے ثبوت اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلیے ناکافی ہیں۔

ایک کیمیائی ہتھیاروں کے ادارے کے ڈائریکٹر نے کہا کہ اس وقت میں اس حوالے سے کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتا اور مجھے اس پر شبہات ہیں کیونکہ جو لوگ مدد فراہم کر رہے تھے انہوں نے کسی بھی قسم کا حفاظتی لباس نہیں پہنا تھا نہ وہ ماسک لگائے ہوئے تھے۔

پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے متاثرہ افراد کو غور سے دیکھا ہے اور انہیں بظاہر اس سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

لیکن اپوزیشن قومی اتحاد کے سربراہ جارج سبرا نے کہا کہ اب تک 1300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس عمل سے فوج نے شام کے سیاسی حل کی تمام امیدیں ختم کر دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شامی حکومت اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کی موجودگی میں دمشق پر حملے کر کے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کا مذاق اڑا رہی ہے۔

ریاستی نیوز ایجنسی سنا کے مطابق دمشق کے نواحی علاقے گھوٹا میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی اطلاعات بالکل غلط ہیں، اس کا مقصد اقوام متحدہ کے کمیشن کے کام میں خلل ڈالنا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے آفس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری جنرل نے ان اطلاعات پر حیرت زدہ اور شدید صدمے میں ہیں اور جس جگہ حملے کیے گئے، وہاں تک رسائی کیلیے صدر بشار الاسد کی حکومت سے بات چیت جاری ہے۔

اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق یو این انسپکشن مشن کے سربراہ آکے سیل ستروم کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سمیت تمام معاملات اور تازہ حملوں کی رپورٹس کے حوالے سے شامی حکومت سے بات چیت کر رہے ہیں۔

امریکا نے مطالبہ کیا ہے کہ انسپکٹرز کو جائے وقوعہ تک فوری رسائی دی جائے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنیسٹ نے ایک بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کی کوششوں کو قابل اعتماد بنانے کیلیے انسپکٹرز کو عینی شاہدین اور متاثرہ افراد تک فوری رسائی دی جائے تاکہ حکومتی مداخلت کے بغیر حقیقت پتہ چلانے کے ساتھ ساتھ ثبوت اکٹھا کر سکیں۔

دوسری جانب قاہرہ میں عرب لیگ نے اقوام متحدہ کے انسپکٹرز پر زور دیا ہے کہ وہ شام کا دورہ کرکے واقعے کی تحقیقات کریں۔

انسانی حقوق کے شامی مبصر گروپ کا کہنا ہے کہ باغیوں کے مضبوط گڑھ میں ہونے والے اس حملے میں 100 سے زائد افراد مارے گئے ہیں تاہم اس نے حملے میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ولیم ہیگ کا کہنا ہے کہ انہیں اس حوالے سے اطلاعات پر گہری تشویش ہے جن کے مطابق واقعے میں سینکڑوں افراد مارے گئے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی کی اطلاعات غیر تصدیق یافتہ ہیں اور ہم فوری طور پر اس حوالے سے مزید اطلاعات کی تلاش کررہے ہیں جنکی اگر تصدیق ہوگئی تو کمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں حیران کن پیشرفت ہوگی۔

ادھر فرانسیسی خبررساں ادارے کے سیکورٹی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی نیا واقعہ پیش نہیں آیا یہاں پر روزانہ کی بنیادی پر لڑائی ہورہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 جون 2025
کارٹون : 21 جون 2025