کراچی کے مسائل حل کرنے کیلئے ہرممکن تعاون کیا جائے گا، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2022
وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم کے ساتھ آج مفید گفتگو ہوئی—فوٹو : ڈان نیوز
وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم کے ساتھ آج مفید گفتگو ہوئی—فوٹو : ڈان نیوز
ایک روزہ دورے کے دوران وزیر اعظم مزار قائد پر حاضری بھی دی — فوٹو: وزیر اعلیٰ ہاؤس
ایک روزہ دورے کے دوران وزیر اعظم مزار قائد پر حاضری بھی دی — فوٹو: وزیر اعلیٰ ہاؤس

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ میں نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو یقین دلایا ہے وفاقی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا

ایک روزہ دورے پر کراچی میں موجود وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ٹرانسپورٹ، پانی اور دیگر اہم منصوبوں میں مراد علی شاہ صاحب اور ان کی ٹیم محنت سے کام کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے آج مزار قائد پر مہمانوں کی کتاب میں لکھا کہ ’اے قائد! 74 سال میں ہماری جو کاکردگی رہی اس سے آپ کی روح کو تسکین نہیں پہنچی ہوگی لیکن ہم کوشش کریں گے کہ آپ کی پیروی کریں اور پاکستان کو آپ کے خواب کے مطابق بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم کے ساتھ آج مفید گفتگو ہوئی، سندھ کے ترقیاتی کاموں سے متعلق شاہ صاحب نے تفصیلات بتائیں، مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ٹرانسپورٹ، پانی اور دیگر اہم منصوبوں میں شاہ صاحب اور ان کی ٹیم محنت سے کام کررہی ہے، میں نے مراد علی شاہ کو یقین دلایا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے مراد علی شاہ صاحب سے دو، تین گزارشیں کی ہیں، ایک یہ کہ کراچی سرکولر ریلوے (کے سی آر) منصوبے کو سی پیک کا حصہ بنوائیں، شروع میں چائنیز اتھارٹی نے اسے سی پیک میں شامل کرنے پر غور کرنے کا اشارہ بھی دیا تھا لیکن اس کے بعد حالات بدل گئے، ان شا اللہ ہم پوری کوشش کریں گے کہ اسے سی پیک کا حصہ بنانے کے لیے چینی حکومت سے درخواست کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں پینے کے پانی کا مسئلہ بہت بڑا چیلنج ہے، اس کے لیے ہم نے بڑی تفصیل سے گفتگو کی، کراچی میں پینے کے پانی کی جتنی بھی طلب ہے اس کا نصف 2024 تک پورا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، میں نے متعلقہ ذمہ داران اور مراد علی شاہ کو گزارش کی ہے کہ نصف نہیں مکمل طلب کو 2024 تک پورا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے مراد علی شاہ صاحب کو تجویز دی کہ کراچی کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ایئر کنڈیشن بسیں منگوائی جائیں، اچھی شہرت کے حامل ٹرانسپورٹز کو ساتھ ملا کر اس منصوبے کو آگے بڑھایا جائے اور اس پر سروس چارجز کو وفاقی اور صوبائی حکومت مل کر برداشت کرے تو یہ ٹرانسپورٹرز کے لیے بھی بہت مفید ہوگا۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اہم اجلاس

اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں سندھ کے ترقیاتی پروگراموں سمیت وفاق اور سندھ کے مسائل سے متعلق اجلاس ہوا،

اجلاس میں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، مفتاح اسماعیل، اکرم درانی، مریم اورنگزیب، خالد مقبول صدیقی، خواجہ اظہار، کنور نوید، مولانا اسد محمود اور چیئرمین واپڈا، چیئرمین ریلویز، چیئرمین این ڈی ایم اے، وفاقی سیکریٹریز صالح فاروقی، عزیز عقیلی اور دیگر متعلقہ افسران شریک ہوئے۔

اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں آج بہت خوش ہوں کہ منصب سنبھالنے کے بعد مزار قائد پر حاضری دی اور سندھ کا دورہ کیا، ہمیں اس ملک کو ملکر خوشحال، پُرامن کرناہے،

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 10 اپریل پاکستان کی تاریخ میں پڑا دن تھا، 10 اپریل کو آئین کی فتح ہوئی، ایک دھاندلی کی حکومت کا اختتام ہوا، ہمیں حکومت کو نکالنے کے شادمانے بجانے کے بجائے عوام کی خدمت کرنی ہوگی، پاکستان کی ترقی تب ہوگی جب تمام صوبے ترقی کرینگے، ملک میں بیروزگاری،مہنگائی اور دیگر مسائل ہیں، ہمیں ان کو حل کرنا ہیں۔

اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم پاکستان کو سندھ کے معاملات سے متعلق بریفنگ دی،

وزیراعلیٰ سندھ نے توانائی، کراچی ٹرانسفارمیشن، جامشورو-سیہون ڈوئل کیرج وے، پاکستان میڈیکل کمیشن، کراچی کے 3 اسپتالوں کا کنٹرول، پانی کے مسائل، کراچی ماس ٹرانزٹ، کراچی کے پانی کے منصوبوں پر وزیر اعظم کو تفصیلی آگاہ کیا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعظم شہباز شریف کو کراچی سرکلر ریلوے پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی کی ٹریفک کا مسئلہ اور بی آر ٹی سروس کی کامیابی کے سی آر پر منحصر ہے، وفاقی حکومت نے کے سی آر پروجیکٹ 201 ارب روپیہ کی لاگت سے منظور کیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو درخواست کی کہ کے سی آر کو سی پیک کے تحت تعمیر کیا جائے، مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ نے سی پیک کو تیز کرنے کا عہد کیا ہے اس لئے کے سی آر سمیت سندھ کے منصوبے سی پیک میں شامل کیے جائیں۔

اجلاس کے دوران کے فور پروجیکٹ پر چیئرمین واپڈا نے وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ 260 ایم جی ڈی کا پروجیکٹ ہے اور اس کی مالیت 126 ارب روپے ہے، یہ پراجیکٹ واپڈا تعمیر کر رہی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ کی درخواست پر وزیراعظم نے کے فور کے فنڈز مہیا کرنے کی ہدایت کی، وزیراعظم نے واپڈا چیئرمین کو اس پروجیکٹ کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ منصوبہ 2024 تک ہر صورت مکمل کیا جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو بی آر ٹی پروجیکٹس پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت سندھ ریڈ لائن بی آر ٹی سسٹم شروع کر رہی ہے، بی آر ٹی ریڈ لائن کے لئے 250 بایو ہائبرٹ بسز خریدی جائینگی، بی آر ٹی ریڈ لائن کو 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد مسافر روزانہ سفر کرینگے، یہ پروجیکٹ 22.5 کلومیٹر کا ہوگا جس کی 23 اسٹیشنز ہونگی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ 208 شیلٹرز اور 2 بس ڈیپو ہونگے، بی آر ٹی ریڈ لائن کا ٹینڈر جاری کیا جا چکا ہے اور جلد اس پر کام ہوگا، بی آر ٹی ییلو لائن 17.6 کلومیٹر ہوگا، یہ منصوبہ ورلڈ بینک کے تعاون سے شروع کیا جا رہا ہے جس پر کنسلٹنٹ کام کر رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ان بی آر ٹی پروجیکٹ کے لئے 2000 الیکٹرک بسز خریدنے کے منصوبے سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔

مراد علی شاہ نے مزید بتایا کہ ان بسز کی خریداری پر 108 ارب روپیہ خرچ ہونگے، وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو بسز کی خریداری کے پروجیکٹس میں 50 فیصد اخراجات دینے کی درخواست کی جس پر وزیراعظم نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ بسوں کی خریداری پر وفاقی حکومت سندھ حکومت کو بھرپور مدد کرے گی۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ حیدرآباد۔سکھر موٹر وے 165.7 ارب روپے کی لاگت سے منظور ہوا، یہ روڈ وفاقی حکومت پی پی پی موڈ پر بنانا چاہتی ہے، یہ 306 کلومیٹر، 6 رویہ کشادہ سڑک ہوگی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم شہباز شریف کو کراچی کے تین بڑے اسپتالوں پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2011 میں جناح اسپتال، کارڈیو اور بچوں کا اسپتال حکومت سندھ کو دیا گیا تھا، حکومت سندھ 2011 سے لے کر اب تک این آئی سی وی ڈی، این آئی سی ایچ، جے پی ایم سی کو اپ گریڈ کیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ جے پی ایم سی میں کینسر کا علاج بھی مفت کیا جاتا ہے، حکومت سندھ نے این آئی سی وی ڈی کے 8 سیٹیلائٹ سینٹرز بھی قائم کئے ہیں، 2011 میں این آئی سی وی ڈی کا کل خرچہ 30 کروڑ روپیہ تھا، اس وقت این آئی سی وی ڈی کا سالیانہ خرچہ 6 ارب روپیہ ہے، وفاقی حکومت نے مارچ 2019 میں جے پی ایم سی کیلئے ایک بورڈ بنایا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ یہ بورڈ ابھی تک کام نہیں کر رہا اور اس بورڈ سے اسپتال کی پرفارمنس خراب ہوگی، سال 2019 میں وفاقی کابینہ نے 3 بڑے اسپتال سندھ حکومت کو دینے کا فیصلہ کیا، وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کے مطابق دیگر صوبوں میں وفاقی اسپتال بھی ان صوبوں کو دیے جائیں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو درخواست کی کہ کراچی کے تینوں بڑے اسپتال حکومت سندھ کو دیئے جائیں، اور یہ اسپتال سندھ کو دینے کے لیے وفاق اور سندھ حکومت کوئی طریقہ کار نکالیں۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وفاقی اور سندھ حکومت معاہدہ کرے گی جس کے تحت ان اسپتالوں کا کنٹرول سندھ حکومت کو دیا جائے گا، وفاقی حکومت اسپتالوں کے حوالے سے فیصلے کا جائزہ لے کر معاہدے کرے گی۔

گیس کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق جس صوبے سے گیس نکلے گی اس پر اسی صوبے کا پہلا حق ہے، وفاقی حکومت ڈبلیو اے سی او جی پالیسی تھوپنا چاہتی ہے، ڈبلیو سی او جی پالیسی کے تحت امپورٹڈ اورلوکل گیس کو پول کر کے گیس کی قیمت کا تعین کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ سے نکلنے والی گیس دیگر صوبوں کو مہیا کیاجا رہا ہے، جس کے باعث سندھ میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے، وزیراعلیٰ سندھ نے او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، پی ایس او، ایس ایس جی سی ایل اور او گرا میں سندھ کی نمائندگی بھی طلب کی ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو درخواست کی کہ سندھ کے دیہاتوں کو گیس مہیا کرنے پر عائد پابندی اٹھائی جائے۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اسلام کوٹ سے چھوڑ تک 105 کلومیٹر ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ تیار ہے، یہ ریلوے لائن تھر کول کی ٹرانسپوٹیشن کے لئے ضروری ہے، وزارت ریلوے نے اس منصوبے کی فزیبلٹی تیار کی ہے، وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو درخواست کی کہ یہ منصوبہ فوری شروع کیا جائے۔

وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ نیپرا ایکٹ میں وفاقی حکومت نے یکطرفہ ترمیم کی، اس ترمیم کی وجہ سے سندھ اپنا نیپرا پر ممبر نامزد نہیں کر سکتا، یہ سندھ کے ساتھ زیادتی ہے اس کو ٹھیک کیا جائے، سندھ میں بجلی کی 12-12 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، سیپکو کی بجلی مانگ 777 میگاواٹ ہے لیکن 412 میگاواٹ ملتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیپکو کی بجلی کی شارٹ فال 365 میگاواٹ ہے، حیسکو کی 1050 میگاواٹ مانگ کے برعکس 652 میگاواٹ بجلی ملتی ہے، حیسکو کو 398 میگاواٹ کم بجلی مہیاہوتی ہے، کے الیکٹرک کی مانگ 3213 میگاواٹ ہے لیکن 2813 میگاواٹ بجلی سپلائی ہوتی ہے، کے ای کو 400 میگاواٹ کی شارٹ فال کا سامنا ہے۔

اجلاس میں گیس کے معاملے سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ ہم گیس منتقلی کے حوالے سے پلان بنا رہے ہیں، صوبوں کو گیس میں حق ملے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم شہباز شریف کو پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) پر بھی بریفنگ دی، مراد علی شاہ نے بتایا کہ پاکستان بننے سے لیکر میڈیکل اور ڈینٹل یونیورسٹیز اور کالجز میں داخلہ دینے کا اختیار صوبائی حکومتوں کو تھا، 1998 میں انٹری ٹیسٹ کا نظام متعارف کرایا گیا جو ادارے خود کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ 2018 میں فیصلہ کیا گیا کہ سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لیے انٹری ٹیسٹ صوبائی سطح پر کیا جائے گا، نجی میڈیکل ادارے اور افواج پاکستان زیرانتظام میڈیکل کے ادرے اینٹری ٹیسٹ سے مستثنیٰ تھے، 2020 میں پی ایم ڈی سی کی جگہ پی ایم سی قائم کیا گیا، پی ایم سی نے ملکی سطح پر انٹری ٹیسٹ ایم ڈی سی اے ٹی کرنا شروع کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ایم سی نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ ہر صوبے کا اپنا اپنا سلیبس ہوتا ہے، سلیبس الگ الگ ہونےکی وجہ سے ایم دی کیٹ قومی سطح پر نہیں ہوسکتا، پی ایم سی نے یہ فیصلہ کرتے وقت صوبائی حکومتوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا، پی ایم سی ایکٹ چھوٹے صوبوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا ہے، پی ایم سی ایکٹ کے تحت مقامی ڈومیسائل کے طالب علم اپنے صوبوں میں داخلہ سے محروم ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ کابینہ نے2021 میں ایم دی کیٹ کے لیے 65 فیصد پاسنگ مارکس کم کرکے 50 فیصد کی تھیں، پی ایم سی نے سندھ کابینہ کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کر دیا، پی ایم سی کےفیصلہ نہ ماننے سے سندھ میں ہر سال ڈاکٹرز کی کمی ہوجائے گی۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو درخواست کی کہ پی ایم سی کو سندھ کابینہ کے فیصلہ کا احترام کرنے کی ہدایت دیں، وزیراعلیٰ سندھ نے درخواست کی کہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے انٹری ٹیسٹ صوبائی سطح پر کیے جائیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت میڈیکل کالجز میں داخلے کے حوالے سے انٹری ٹیسٹ خود لینے کا پروپوزل بنائے، ہم دیگر صوبوں سے بھی یہی کہتے ہیں، صوبے اگر خود ٹیسٹ لینے کی حامی بھریں گے تو ہم اس پر ضرور غور کریں گے، پانی، کے سی آر کے معاملات میں خود دیکھوں گا، میں کمیٹی بناؤں گا، باقی جو بھی مسائل ہیں ان کو حل کریں گے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی کراچی آمد

اس سے قبل وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچے، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔

بطور وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ پہلا دورہ کراچی ہے، اس موقع وزیر اعظم کے ہمراہ شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب اور احسن اقبال سمیت مسلم لیگ (ن) کے دیگر اراکین پارلیمنٹ بھی موجود ہیں۔

کراچی پہنچنے پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ وزیر اعظم کا استقبال کیا، اس موقع پر ایم کیو ایم کنوینر خالد مقبول صدیقی بھی موجود تھے جبکہ کراچی سے تعلق رکھنے مسلم لیگ (ن) کے رہنما مفتاح اسمٰعیل سمیت دیگر نے وزیر اعظم کو خوش آمدید کہا۔

ایک روزہ دورے کے دوران وزیر اعظم مزار قائد پر حاضری بھی دی — فوٹو: وزیر اعلیٰ ہاؤس
ایک روزہ دورے کے دوران وزیر اعظم مزار قائد پر حاضری بھی دی — فوٹو: وزیر اعلیٰ ہاؤس

وزیر اعظم نے ایک روزہ دورہ کراچی پر اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ مزار قائد پر بھی حاضری دی، جہاں انہوں بانی پاکستان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی، بعد ازاں مہمانوں کی کتاب میں اپنے خیالات بھی درج کیے۔

وزیر اعظم بانی پاکستان کی قبر پر فاتحہ خوانی کی— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم بانی پاکستان کی قبر پر فاتحہ خوانی کی— فوٹو: ڈان نیوز

مزار پر حاضری کا مقصد ملک کی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے بانی قوم کے وضع کردہ اصولوں کی پاسداری کا اعادہ کرنا ہے۔

وزیر اعظم کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے مشاورتی اجلاس کی صدارت کی، جس میں انہیں سندھ بالخصوص کراچی کو درپیش مسائل سے بھی آگاہ کیا گیا۔

وزیراعظم نے ایم کیو ایم کی قیادت سے ملاقات کے لیے بہادر آباد کا بھی دورہ کیا ۔

خیال رہے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف 12 اپریل کو 174 ووٹ لے کر ملک کے 23 ویں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

وزیر اعظم شہباز شریف سابق وزیر اعظم عمران خان کے پیش رو ہیں، جنہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے برطرف کیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کوپیش کی گئی تھی جسے اجلاس میں پہلے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے مسترد کردیا تھا جبکہ بعد ازاں معاملہ ازخود نوٹس کے ذریعے سپریم کورٹ میں گیا اور دوبارہ اسمبلی کا اجلاس ہوا۔

تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے دوسرے اجلاس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سمیت پی ٹی آئی کے تمام اراکین نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) رہنما ایاز صادق کے اجلاس کی صدارت کی اور 174 ووٹ کے ساتھ شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں