الوداعی ظہرانے نے ’دھمکی آمیز خط‘ کے تنازع کو جنم دیا

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2022
پاکستانی وفد میں ڈپٹی چیف آف مشن سید نوید بخاری اور دفاعی اتاشی شامل تھے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
پاکستانی وفد میں ڈپٹی چیف آف مشن سید نوید بخاری اور دفاعی اتاشی شامل تھے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

نام نہاد 'دھمکی آمیز خط' کے اسکینڈل کا آغاز 7 مارچ کو پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے لیے ان کی رہائش گاہ پر الوداعی ظہرانے میں ہوا، اسد مجید خان کی رہائش گاہ کو پاکستان ہاؤس بھی کہا جاتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سفارتی اور سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ظہرانے میں ایک نوٹ لینے والے نے بھی شرکت کی تھی، بعد ازاں جو کیبل سفیر اسد مجید خان نے اسلام آباد بھیجا وہ اسی کے مرتب کردہ نوٹس پر مبنی تھا، اس شخص کا تعلق پاکستانی سفارت خانے سے تھا۔

ظہرانے میں شرکت کرنے والے امریکی حکام میں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو اور ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری لیسلی سی ویگوری شامل تھے۔

پاکستانی وفد میں ڈپٹی چیف آف مشن سید نوید بخاری اور دفاعی اتاشی شامل تھے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی جانب سے مراسلے کی تحقیقات کی پیش کش، پی ٹی آئی نے مسترد کردی

7 مارچ کی دوپہر کے کھانے پر ہونے والی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب یوکرین پر روس کے حملے کو دو ہفتے سے بھی کم وقت گزرا تھا، اس لیے یوکرین پر حملے کی گفتگو غالب رہی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ امریکی فریق نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے ماسکو جانے کے فیصلے پر 'مایوسی' کا اظہار کیا، جہاں اسی روز روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ کس طرح حملے نے پوری امریکی قوم کو غصے میں مبتلا کیا، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے خیال میں عمران خان کو کیوں اپنا دورہ ملتوی کرنا چاہیے تھا۔

ذرائع نے کہا کہ ڈونلڈ لو نے اشارہ دیا تھا کہ ’واشنگٹن کا خیال ہے کہ حملے کے باوجود دورے کو آگے بڑھانے کا حتمی فیصلہ عمران خان کا تھا‘ حالانکہ کچھ پاکستانی حکام نے اسے ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز خط: حکومت کا تحقیقاتی کمیشن بنانے، مواد اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان

ذرائع کے مطابق پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے دلیل دی تھی کہ یہ ایک اجتماعی فیصلہ تھا اور پاکستان برسوں سے ماسکو کے دورے کی کوشش کر رہا تھا اور جب دعوت آئی تو اسے ٹھکرا سکے نہ ملتوی کر سکے۔

تاہم امریکیوں نے دلیل دی کہ اسلام آباد کو اس دورے سے قبل اس معاملے پر ’واشنگٹن کی حساسیت پر بھی غور‘ کرنا چاہیے تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ ظہرانے کے دوران پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول پر بھی گفتگو ہوئی، اس موقع پر ڈونلڈ لو نے نشاندہی کی کہ واشنگٹن نے حالات پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اقدام کا نتیجہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو بھی متاثر کرے گا۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ڈونلڈ لو کے دلائل ’خطرناک اور معمول سے مختلف‘ تھے لیکن انہوں نے حکومت کی تبدیلی کی دھمکی نہیں دی۔

ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اجلاس میں شریک کسی بھی شخص نے یہ محسوس نہیں کیا کہ امریکی، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’دھمکی آمیز خط‘ ایک وزیر نے خود کسی سفیر سے لکھوایا، بلاول بھٹو کا دعویٰ

انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی یہ تاثر نہیں ملا لیکن انہوں نے کہا کہ ’نتیجہ دوطرفہ تعلقات کو متاثر کرے گا‘، اس کی کسی بھی طرح تشریح کی جاسکتی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکا نے عمران خان کے دورہ ماسکو پر پاکستان کے ساتھ اپنی ’مایوسی‘ کو کبھی نہیں چھپایا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپریل میں واشنگٹن کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن یہ جاننے کے بعد اسے ملتوی کردیا کہ امریکی، یوکرین کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔

ذرائع نے کہا کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ امریکی سازش ہے لیکن اس نے بعض ردعمل کو جنم دیا جس نے پاکستان کی ملکی سیاسی حالات کو متاثر کیا‘۔

ڈونلڈ لو کے الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کیا محسوس کرتی ہے اور سوچتی ہے، یہ بہت غیر معمولی بات تھی۔

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز خط پارلیمان میں ان کیمرا رکھنے جارہے ہیں، فواد چوہدری

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ظہرانے میں دفاعی اتاشی بھی موجود تھے اور یوکرین کے مسئلے پر وہ امریکی عہدیداران کے ساتھ کام بھی کر چکے ہیں۔

انہوں نے وضاحت دی کہ یوکرین کے معاملے پر جنرل باجوہ کا تبصرہ عمران خان کی پالیسیوں سے الگ کیوں ہے۔

خیال رہے سابق وزیراعظم خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے سرد جنگ کے دوران مغرب کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی اسے روس یوکرین تنازع میں غیر جانبدار رہنا چاہیے اور انہوں نے ماسکو کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

دوسری جانب 2 اپریل کو اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے، جنرل باجوہ نے یوکرین پر روس کے فوجی حملے کی مذمت کی تھی، اور اسے فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا تھا جسے انہوں نے ایک چھوٹے ملک کو ’بڑا سانحہ‘ قرار دیا تھا۔

بعد ازاں پاک فوج کے میڈیا ونگ آئی ایس پی آر نے بھی عمران خان کے امریکی سازش کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا حالانکہ انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ واشنگٹن نے ظہرانے میں ایسی زبان استعمال کی تھی جو پاکستانی معاملات میں مداخلت کے مترادف تھی۔

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز خط: سفارتی ذریعے سے مراسلہ دے دیا گیا، دفتر خارجہ

آئی ایس پی آر کے سربراہ نے نشاندہی کی کہ اس معاملے پر قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں واشنگٹن سے رابطے پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا گیا، لیکن 'سازش' کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

8 اپریل کو بطور وزیراعظم قوم سے اپنے آخری خطاب میں عمران خان نے اپنے الزامات کو دہرایا کہ ایک سینئر امریکی سفارت کار نے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کی دھمکی دی ہے۔

ایک اور بیان میں عمران خان نے عہدیدار کا نام ’ڈونلڈ لو‘ لیا تھا، جس نے مبینہ طور پر یہ دھمکی پاکستانی سفیر خان سے ملاقات میں دی تھی۔

10 اپریل کو عمران خان کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جلینا پورٹر نے کہاتھا کہ’میں صرف دو ٹوک الفاظ میں کہوں گی کہ ان الزامات میں قطعی کوئی صداقت نہیں ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں