حلف لینے سے انکار، حمزہ شہباز کا گورنر پنجاب کیخلاف عدالت جانے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2022
مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی اتحاد کا ماننا ہے کہ حمزہ شہباز آئینی طور پر منتخب وزیر اعلیٰ نہیں ہیں —فائل فوٹو: حنا پرویز بٹ ٹوئٹر
مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی اتحاد کا ماننا ہے کہ حمزہ شہباز آئینی طور پر منتخب وزیر اعلیٰ نہیں ہیں —فائل فوٹو: حنا پرویز بٹ ٹوئٹر

گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کے ’حربوں‘ سے پریشان ہوکر وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ان کے خلاف آج (منگل) کو لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے فیصلہ کیا ہے، جس میں بلاتاخیر وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لینے سے متعلق حکم دینے کی استدعا کی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے نے اس امید سے یہ کیس واپس لاہور ہائی کورٹ میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے کہ انہیں ریلیف مل سکے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹیوں نے بھی ’وزیر اعلیٰ کے غیر آئینی انتخاب‘ کو چیلنج کرنے کے لیے آئینی ماہرین سے مشاورت شروع کردی ہے۔

مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی اتحاد کا ماننا ہے کہ حمزہ شہباز آئینی طور پر منتخب وزیر اعلیٰ نہیں ہیں کیونکہ ان کے مخالفین چوہدری پرویز الہٰی اور ان کے حمایتی قانون ساز ’منصوبہ بندی‘ کے تحت ووٹنگ کے مرحلے سے جاچکے تھے۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب! ‘عوام کا چھینا ہوا مینڈیٹ لوٹا دیا گیا’

مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطااللہ تارڑ نے ڈان کو بتایا کہ حمزہ شہباز، لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کریں گے کہ عدالت متعلقہ حکام کو ان کے عہدے پر حلف لینے کی ہدایت جاری کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو ہدایت دی تھی کہ وہ 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی ووٹنگ کروائیں، حلف برداری بھی عدالتی حکم کا حصہ ہے جس سے گورنر نے انکار کردیا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ یہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ اپنے حکم کا نفاذ کرے۔

عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت درخواست گزار حمزہ شہباز ان کی حلف برداری سے انکار پر گورنر کے ’غیر قانونی‘ عمل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ نئے وزیر اعلیٰ سے فوری طور پر حلف لیا جائے۔

اتوار کو گورنر نے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کی رپورٹ پر حمزہ شہباز کی درخواست پر حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے منحرف رہنما علیم خان کی حمزہ شہباز سے اختلافات کی افواہوں کی تردید

پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان کے سامنے پیش کی جانے والی لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور ’حقائق‘ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی صداقت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

گورنر نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ’میں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کو خط لکھتے ہوئے سیکریٹری کی رپورٹ پر ان کا بیانیہ طلب کیا ہے، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور دیگر حقائق کے بعد حلف برداری کی تقریب منعقد کروانے کے حوالے سے میرا ذہن تذبذب کا شکار ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے ڈان کو بتایا کہ وہ (آج) منگل کو گورنر کو اپنی رائے سے آگاہ کریں گے کہ وزیراعلیٰ کا انتخاب قانون کے مطابق یا اس کے خلاف ہوا ہے۔

عثمان بزدار کا استعفیٰ

اس سلسلے میں گورنر پنجاب نے عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفے پر بھی قانونی رائے طلب کی ہے کیونکہ اس وقت یہ باتیں بھی سامنے آئی تھیں کہ انہوں نے استعفیٰ گورنر کو نہیں دیا تھا۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب

پارٹی کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’اگر عثمان بزدار کو بحال کیا گیا تو ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے، ’پی ٹی آئی اور (ق) لیگ کا اتحاد 'جونیئر شہباز' کو آسانی سے ٹاپ پوزیشن پر قبضہ حاصل نہیں کرنے دے گا‘۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے عمر چیمہ کو ہٹانے کی سمری صدر ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کی تھی تاہم انہوں نے گورنر کو کام جاری رکھنے کا کہا تھا۔

ڈپٹی اسپیکر کا سوال

ادھر پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے ہفتے کے اختتام میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران غنڈہ گردی پر رپورٹ تیار کرنے سے متعلق ’معطل سیکریٹری‘ کے حق پر سوال اٹھایا ہے۔

اپنی رپورٹ میں پی اے سیکریٹری محمد خان بھٹی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر اپنے گارڈز اور پولیس کی نفری کے ساتھ ایوان میں داخل ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے متعدد قانون سازوں کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت 27اپریل تک ملتوی

ان کا کہنا تھا کہ ’دوست مزاری نے میگا فون کے ذریعے انتخابی عمل کو آفیسرز باکس سے چلایا جو کہ اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے خلاف تھا‘۔

اسپیکر پرویز الہٰی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس ختم ہوتے ہی ڈپٹی اسپیکر کو دیے گئے تمام اختیارات کالعدم ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوست مزاری نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، انہوں نے جن پی اے کے افسران کو معطل کیا تھا جن کو بحال کر دیا گیا ہے، درحقیقت ان کے پاس انہیں معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں