شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت 27اپریل تک ملتوی

11 اپريل 2022
عدالت نے شہباز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی— فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے شہباز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسپیشل کورٹ سینٹرل نے مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت 27اپریل تک ملتوی کردی۔

ایف آئی اے نے چینی کے کاروبار کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے کے مقدمے میں شہباز شریف کی ضمانت منسوخی کے لیے اسپیشل کورٹ سینٹرل میں درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ایف آئی اے کی درخواست پر شہباز شریف 4 اپریل کو عدالت طلب

پیر کو اسپشل کورٹ سینٹرل کے جج اعجاز حسن اعوان نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت میں شہباز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کروائی۔

حمزہ شہباز عدالت میں پیش ہوئے لیکن ایف آئی اے کی پراسیکیوشن ٹیم عدالت میں پیش نہیں ہوئی۔

امجد پرویز نے مؤقف اپنایا کہ شہباز شریف قومی اسمبلی کے سیشن میں ہیں لہٰذا ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی جائے۔

اس دوران حمزہ شہباز کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حمزہ شہباز کی درخواستوں پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہونی ہے لہٰذا یہاں سماعت ملتوی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: ایف آئی اے کی عدالت میں روزانہ سماعت کی درخواست

جسٹس اعجاز حسن اعوان نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد ہونے دیں، دوسرا پراسس بھی چلنے دیں۔

اس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قانون اور آئین کی کی پاسداری کریں گے، انوسٹی گیشن مکمل ہے اس لیے ضمانت تو کنفرم کر دی جائے۔

جج نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر ہدایات لے کر عدالت پیش ہوں اور جو بھی کرنا ہے عدالت کو آئندہ سماعت پر آگاہ کریں۔

دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں ملک سے باہر جا رہا ہوں، 25 اپریل تک ملک میں نہیں ہوں اور عمرے پر جا رہا ہوں۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ میری غیر موجودگی میں میرے مؤکل کے خلاف فرد جرم عائد نہ کی جائے۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف رمضان شوگر مل کے کبھی ڈائریکٹر نہیں رہے، نیب گواہ

جسٹس اعجاز اعوان نے ایف آئی اے سے دریافت کیا کہ انہیں 27اپریل کی تاریخ پر کوئی اعتراض تو نہیں جس پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

اسپیشل کورٹ سینٹرل نے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی۔

منی لانڈرنگ کیس

یاد رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے۔

شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔

ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرایے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: رمضان شوگر ملز ریفرنس: شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی

چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپراسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔

ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔

چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحق ڈار کی مد سے کیا۔

ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف اور حمزہ شہباز (دونوں ضمانت قبل از گرفتار پر) اور سلیمان شہباز (اشتہاری) کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرمکی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامیہ عہدوں پر براجمان رہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں