مارچ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دگنا ہوکر ایک ارب ڈالر پر جاپہنچا

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2022
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ تیل کے علاوہ دیگر اجناس کا بیلنس مسلسل دوسرے ماہ سرپلس رہا — فائل فوٹو: اے پی پی
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ تیل کے علاوہ دیگر اجناس کا بیلنس مسلسل دوسرے ماہ سرپلس رہا — فائل فوٹو: اے پی پی

مارچ میں ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ ماہ کے مقابلے دگنا ہوکر تقریباً ایک ارب ڈالر پر پہنچ گیا، رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ (جولائی سے مارچ) کے دوران مجموعی خسارہ 13 ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعداد و شمار اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں جو نئی حکومت کے لیے چونکانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

خیال رہے نئی حکومت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک ارب ڈالرز کے فنڈز کے حوالے سے مذاکرات کر رہی ہے۔

رواں مالی سال کے آغاز سے حکومت بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو روکنے میں ناکام ہے، جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: جنوری میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا

ایس بی پی نے ٹوئٹ کیا کہ ’عالمی سطح پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیلی دیکھی جارہی ہے جس کے بعد مارچ میں خسارہ ایک ارب ڈالر پر پہنچ گیا ہے، یہ خسارہ مالی سال 2022 کے اوسطاً خسارے سے 50 کروڑ ڈالر کم ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ تیل کے علاوہ دیگر اجناس کا بیلنس مسلسل دوسرے ماہ سرپلس رہا۔

رواں مالی سال جولائی سے مارچ کے درمیان ملک میں آنے اور جانے والی اشیا، خدمات اور سرمایہ کاری کے ذریعے پیمائش کیے جانے والا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب 16 کروڑ ڈالر رہا جو گزشتہ سال 27 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہوگیا تھا۔

اسٹیٹ بینک نے اطلاع دی ہے کہ رواں مالی سال کے 9 ماہ کے دوران درآمدات کی شرح 41.3 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال اسی دورانیے میں یہ شرح 11.5 فیصد تھی۔

مزید پڑھیں: فروری میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 78 فیصد کم ہوگیا

جولائی سے مارچ کے دوران اشیا اور سروسز کی درآمدات پر مجموعی طور پر 62 ارب 13 کروڑ 70 لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے جبکہ اس کے مقابلے برآمدات 28 ارب 85 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہی۔

بڑھتی ہوئی درآمدات تجارتی خسارے میں اضافے کا سبب بن رہی ہے اور زرمبادلہ کی شرح کو تباہ کر رہی ہے، رواں مالی سال کے دوران ڈالر کی طلب میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سہ ماہی اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جولائی سے ستمبر کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3 ارب 52 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھا، اکتوبر سے دسمبر کے دوران 5 ارب 56 کروڑ 50 لاکھ ڈالر اور جنوری سے مارچ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4 ارب 78 کروڑ ڈالر رہا۔

ہر سہ ماہی میں اوسطاً کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4 ارب 40 کروڑ ڈالر رہا، جس کا مطلب ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک یہ خسارہ 17 ارب 50 کروڑ ڈالر پر جاپہنچے گا۔

مزید پڑھیں: جولائی سے دسمبر تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9 ارب 9 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا

سابق حکومت کی جانب سے درآمدات پر اضافی ڈیوٹی متعارف کروا کر درآمدی بل کم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، یہ پالیسی خاص طور پر لگژری اشیا کے لیے تھی۔

تاہم عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں اضافے کے باعث حکومت کی یہ پالیسی ناکام رہی، پاکستان نے جولائی سے مارچ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کی مد میں 14 ارب ڈالر ادا کیے، تیل کا یہ درآمدی بل گزشتہ سال کے مقابلے تقریباً دگنا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے رپورٹ کیا کہ جولائی سے مارچ کے دوران اشیا اور خدمات کی تجارت کے بیلنس میں 33 ارب 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر خسارہ دیکھا گیا جو گزشتہ سال اسی مدت میں کے دوران 21 ارب 29 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور درآمدات، معیشت کے لیے خطرہ

یہ دگنا خسارہ نئی حکومت کو بے چین رکھے گا جبکہ ان حالات پر قابو پانے کے لیے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے۔

اسٹیٹ بینک کی زیر قیادت زرمبادلہ کے ذخائر میں زبردست کمی جو فی الحال 10 ارب 80 کروڑ ڈالر ہے، قیاس آرائیوں کی وجہ سے زرمبادلہ کی شرح غیر مستحکم کرنے کا سبب بنتی ہے۔

علاوہ ازیں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے کے لیے شرح سود حال ہی میں 250 بیسز پوائنٹس اضافے کے ذریعے 12.25 فیصد کیا گیا، اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں