کیبور 13 سال کی بلند ترین سطح پر، شرح سود میں ایک مرتبہ پھر اضافے کا خدشہ

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2022
افراط زر کی موجودہ  شرح 12.7 فیصد ہے جبکہ شرح سود 12.25 فیصد ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
افراط زر کی موجودہ شرح 12.7 فیصد ہے جبکہ شرح سود 12.25 فیصد ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی انٹر بینک آفر ریٹ (کیبور) منگل کو 14.1 فیصد کے ساتھ 13 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جو کہ موجودہ پالیسی ریٹ کو چیلنج کرنے والے متعدد عوامل کا مقابلہ کرنے کے لیے شرح سود میں ایک اور اضافے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کی عکاسی کرتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مالیاتی شعبے کے ذرائع نے بتایا کہ کئی عوامل اجتماعی طور پر آنے والے دنوں یا ہفتوں میں شرح سود میں ایک اور اضافے کی بنیاد بنے ہیں۔

تجزیہ کاروں نے کہا کہ 6 ماہ کے ٹریژری بلز (ٹی بلز) پر کٹ آف پیداوار پالیسی شرح سود سے پہلے ہی 160 بیسس پوائنٹس آگے ہے۔

پچھلی نیلامی میں 6 ماہ کے ٹی بلز 13.85 فیصد پر فروخت ہوئے تھے، رواں ماہ کے آغاز میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں اعلان کردہ 250 بیسس پوائنٹس کے اضافے کے بعد پالیسی شرح سود 12.25 فیصد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیبور سے کم شرح پر سکوک کا حصول، حکومت پر مارکیٹ کے اعتماد کا ثبوت ہے، عمران خان

بینکنگ مارکیٹ میں منی ڈیلر ایس ایس اقبال نے کہا کہ ’اس بات کا امکان ہے کہ بدھ کو (آج) ہونے والی نیلامی میں 6 ماہ کے بینچ مارک ٹریژری بلز میں 25 سے 40 بیسس پوائنٹس کا اضافہ ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ سیکنڈری مارکیٹ نے منگل کو 14.10 فیصد کٹ آف پیداوار کے ساتھ 6 ماہ کے ٹی بلز فروخت کیے ہیں۔

کیبور 14.10 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو 19 فروری 2009 کے بعد سے اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو پیسے کی ضرورت ہو اور بینک ہی اس کا واحد بڑا ذریعہ ہوں تو بینک اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ اگلی نیلامی میں حکومت کو زیادہ شرح پر قرض دیں گے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پہلے ہی 2018 سے وفاقی حکومت کو قرض دینے سے اسٹیٹ بینک کو روک دیا ہے۔

مزید پڑھیں: شرح سود میں ایک فیصد کمی، پالیسی ریٹ 7فیصد کردیا گیا

تجزیہ کاروں نے بڑھتی ہوئی افراط زر کے اثرات کو کم کرنے پر زور دیتے ہوئے اسے شرح سود میں اضافے کا اہم عنصر قرار دیا جو مارچ میں 12.7 فیصد تک پہنچ گئی۔

پاک-کویت ڈیولپمنٹ اینڈ انویسٹمنٹ کمپنی کی ریسرچ کے سربراہ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ نئی حکومت کی جانب سے پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے سے افراط زر یقینی طور پر بلند ہو جائے گا۔

افراط زر کی موجودہ شرح 12.7 فیصد ہے جبکہ شرح سود 12.25 فیصد ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقی شرح سود منفی ہے۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مہنگائی میں بڑھنے کا خدشہ ہے، آئی ایم ایف کی شرائط میں سے ایک پیٹرولیم کی قیمتوں میں ریلیف ختم کرنا ہے جو کہ پچھلی حکومت نے نئے بجٹ (جون) تک مقرر کیا تھا جبکہ بجلی پر بھی ریلیف دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان، 15 ماہ بعد شرح سود میں اضافہ

پچھلی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اضافی محصولات کی وصولی کے سبب یہ فائدہ عام لوگوں اور صنعت تک پہنچانا ممکن ہوا۔

رواں مالی سال میں 2 کھرب 74 ارب روپے کی اضافی رقم جمع ہونے کی توقع ہے جو عام لوگوں کو تیل اور بجلی پر ریلیف فراہم کرنے کے لیے مختص کی گئی تھی۔

تاہم نئی حکومت کا استدلال ہے کہ محصولات کی کوئی اضافی وصولی نہیں ہوئی، وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ یکم مئی سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔

انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ اپنی گاڑیوں کی ٹنکیوں کو ایندھن سے نہ بھریں کیونکہ یکم مئی سے قبل تیل کی قیمت میں اضافے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

سمیع اللہ طارق نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات میں یہ متوقع اضافہ مہنگائی کو بڑھا دے گا جس سے اسٹیٹ بینک کے لیے اسی موجودہ شرح سود پر قائم رہنا مشکل ہو جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں