ثمر ایک اسنو بورڈر کے روپ میں
ثمر ایک اسنو بورڈر کے روپ میں

موسم گرما آپ کو نیلے آسمان اور دھوپ کی یاد دلاتا ہے۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جب تیز ہوا کے جھونکوں میں درخت جھومتے ہیں اور پتے سرسراتے ہیں۔ ایسے میں کچھ لوگوں میں پہاڑوں کی ٹھنڈی ہوا اور ان کی اپنی بے چین روح ایڈونچر کی طلب پیدا کرتی ہے۔

آج ہم آپ کو اسلام آباد میں بسنے والی ایک ایسی ہی بے چین روح ثمر خان سے ملوارہے ہیں جنہیں 'فخرِ پاکستان' اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے لیے 'خیر سگالی کی سفیر' کے طور پر جانا جاتا ہے۔

ثمر کا ایڈونچر اس وقت شروع ہوا تھا جب کچھ سال پہلے ان کے والدین اپنے چاروں بچوں کے لیے سرخ رنگ کی نئی بی ایم ایکس سائیکل لے کر آئے تھے۔ ثمر نے بتایا کہ 'ہم چاروں کے لیے وہ ایک ہی سائیکل تھی۔ اس وقت ہم میں سے کسی کو بھی سائیکل چلانی نہیں آتی، سب سے پہلے میں نے ہی سائیکل چلانی سیکھی تھی'۔ ثمر اب ماؤنٹین بائیکنگ، ہائیکنگ، ٹریکنگ، اسنو بورڈنگ اور ہر اس چیز میں مہارت حاصل کرچکی ہیں جس کا ایڈونچر اسپورٹس سے تعلق ہے۔

ثمر نے بتایا کہ 'میں اپنے بھائیوں اور بہن کے ساتھ سائیکل لے کر نکلی۔ ہم سب ہی سائیکل چلانا چاہتے تھے اس وجہ سے ہم باریاں لیتے رہے لیکن کچھ باریوں کے بعد میرے بھائی بہن بور ہوگئے لیکن مجھے تو سائیکل کا توازن برقرار رکھنا سیکھنا تھا۔ میں نے بار بار کوشش کی اور اس دوران کئی مرتبہ گری اور زخمی بھی ہوئی۔ پھر 2 سے 3 گھنٹوں کی مسلسل کوششوں کے بعد میں نے توازن برقرار رکھنا سیکھ لیا۔ اس کے بعد وہ سرخ سائیکل صرف میری تھی کیونکہ مجھے ہی سائیکل چلانی آتی تھی'۔ بعد میں ثمر نے اپنے ایک بھائی کو بھی سائیکل چلانا سکھائی۔

ثمر کا خاندان لوئر دیر سے ہے لیکن ان کے والد کی راولپنڈی میں پوسٹنگ کی وجہ سے وہ وہیں رہ رہی تھیں۔ ثمر نے بتایا کہ 'میری اسکولنگ بھی راولپنڈی میں ہی ہوئی تھی۔ ہمارے والدین کی پوری توجہ اس بات پر تھی کہ ہم سب بہترین تعلیم حاصل کریں۔ پھر بھی کوئی کالج اور یونیورسٹی مجھے سائیکلنگ سے دُور نہیں رکھ سکی'۔

ثمر ایک ماؤنٹین بائیکر بھی ہیں
ثمر ایک ماؤنٹین بائیکر بھی ہیں

یہ سال 2016ء کی بات ہے جب ثمر اور ان کی ایک سہیلی نے پہاڑوں پر جانے کا سوچا۔ وہ بتاتی ہیں کہ 'ہم نے اسلام آباد سے خنجراب پاس تک جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ راستہ 750 سے 800 کلومیٹر بنتا ہے۔ بس ہم 2 لڑکیاں تھیں اور ہماری سائیکلیں تھیں۔ ہم نے سفر کو اس طرح تقسیم کیا کہ ہم ایک دن میں کتنا فاصلہ طے کرسکتے ہیں اور ہمیں رات کو رکنے کے لیے ہر شام کہاں تک پہنچنا ہے۔

'ہم نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا، خاص طور پر خشک میوہ جات رکھے، ہم نے نقشوں سے مدد لی، سڑک کنارے بنے ڈھابوں پر رک کر کھانا کھایا اور دوبارہ چل پڑے۔ اس طرح ہم نے 15 دن تک سفر کیا۔ جہاں جہاں ہمیں انٹرنیٹ دستیاب ہوا ہم نے سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور ویڈیو کلپس اپلوڈ کردیں'۔

ثمر کا کہنا تھا کہ 'وادی ہنزہ خواتین کے لیے محفوظ جگہ ہے۔ وہاں شرح خواندگی 90 فیصد سے زائد ہے۔ وہاں جرائم نہیں ہوتے اور وہاں ہراسانی کا کوئی تصور نہیں ہے'۔

ثمر کا کہنا تھا کہ 'واپسی پر ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم نے جو تصاویر اور ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی تھیں وہ بہت وائرل ہوئیں اور ہم مشہور ہوگئے۔ کچھ ہی ہفتوں میں میڈیا میں بھی ہماری کامیابیوں کا ذکر ہونے لگا۔ کسی نے بھی پہلے کبھی 2 لڑکیوں کا سائیکل پر اکیلے چین کی سرحد تک جانے کا نہیں سنا تھا۔ اس کامیابی کے احساس سے ہم بہت خوش تھے۔ اس کے بعد میں نے خود کو بہت زیادہ پر اعتماد محسوس کیا'۔

لیکن اس سفر کے بعد ثمر اکیلی رہ گئیں کیونکہ ان کی سہیلی اپنی نوکری اور گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف ہوگئیں۔ اس وجہ سے ثمر نے اگلے ہی سال اکیلے سفر کی منصوبہ بندی کی۔ ثمر بتاتی ہیں کہ 'وہ پاکستان کے تیسرے بڑے گلیشیئر بیافو گلیشیئر کا 2 ہفتے کا اکیلے سفر تھا۔ اس سفر نے میری والدہ کو بہت پریشان کردیا تھا لیکن میں کسی چیز سے نہیں رکی۔ اس سفر کے نتیجے میں مجھے پہلے کے مقابلے زیادہ پذیرائی بھی ملی۔

'میں ہر وقت اکیلی نہیں ہوتی تھی۔ مجھے پہاڑوں اور گلیشیئرز میں داخل ہونا تھا تو اس کے لیے 3 افراد پر مشتمل ایک مقامی ٹیم کی خدمات لینی پڑیں۔ اس 67 کلومیٹر کی چڑھائی کے لیے پورٹر اور کلائمبر شامل تھے۔ میں نے اس سفر سے قبل اچھی طرح تحقیق کرلی تھی اور وہاں کے موسمی حالات وغیرہ سے بھی واقفیت حاصل کرلی تھی۔ ساتھ ہی میں نے تمام ضروری آلات بھی رکھ لیے تھے۔

'میں نے گلیشیئر تک لے جانے کے لیے اپنی سائیکل کو کھول کے الگ کرلیا تھا۔ وہاں پہنچنے اور کیمپ لگانے کے بعد میں نے سائیکل کو دوبارہ جوڑ لیا۔ اس گلیشیئر میں بڑی بڑی دراڑیں تھیں جن کو عبور کرنا تھا اس وجہ سے میرے سفر میں کوہ پیمائی، ٹریکنگ اور سائیکلنگ تینوں کام شامل تھے'۔

جس طرح ان کے پہلے سفر نے ثمر کو اعتماد دیا تھا اسی طرح ان کا دوسرا سفر ان کی والدہ کے لیے اعتماد کا باعث بنا۔ ثمر بتاتی ہیں کہ 'اس وقت تک میرے والد کو گزرے کچھ سال ہوچکے تھے، میری والدہ اپنی ایڈونچر کی شوقین بیٹی کے حوالے سے پریشان رہتی تھیں لیکن پھر انہیں بھی احساس ہوگیا کہ میں اپنا خیال رکھ سکتی ہوں۔ اب وہ میرا سب سے بڑا سہارا ہیں'۔

مزید اعتماد نے ثمر کے تیسرے سفر کی راہ ہموار کی۔ ثمر کو پاک فوج کے تعاون سے مشرقی افریقہ جانے کا موقع ملا جہاں انہوں نے افریقہ کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ کلیمنجارو سر کی۔ وہ کہتی ہیں کہ 'وہ ایک چوڑا پہاڑ تھا تو میں نے وہاں اپنی ماؤنٹین بائی سائیکل بھی چلائی'۔

اس کے بعد ثمر آگے ہی بڑھتی رہیں۔ وہ پاکستان سے ای ایس پی این ڈبلیو کے ایک اسپورٹس پروگرام کے لیے بھی منتخب ہوگئیں۔ ای ایس پی این ڈبلیو مختلف براعظموں اور ممالک کی خواتین کھلاڑیوں کے لیے ای ایس پی این نامی اسپورٹس چینل کا عالمی مینٹورشپ اور ٹریننگ پروگرام ہے۔

ثمر کوہ پیمائی بھی کرتی ہیں
ثمر کوہ پیمائی بھی کرتی ہیں

ثمر نے بتایا کہ 'پروگرام کے دوران میں تقریباً 2 ماہ تک امریکا میں رہی۔ ہم نے 4 ریاستوں واشنگٹن ڈی سی، نیویارک، کیلیفورنیا اور ورمونٹ کا سفر کیا۔ انہوں نے کھیلوں میں دلچسپی کے مطابق مختلف کھلاڑیوں کو مختلف تنظیموں سے ملوایا۔ چونکہ میں ایڈونچر اسپورٹس سے وابستہ تھی، اس لیے انہوں نے مجھے اسنو بورڈ بنانے والی کمپنی برٹن اسنو بورڈز سے ملوایا جنہوں نے مجھے اسنو بورڈنگ سکھائی۔ پروگرام کے اختتام پر مجھے پاکستان میں اسنو بورڈنگ شروع کرنے کے لیے ان کی طرف سے ایک اسنو بورڈنگ کٹ بھی دی گئی'۔

اگلے چند موسم سرما کے دوران وہ یہیں اسنو بورٹنگ میں مہارت حاصل کریں گی اور پھر برف باری ہونے پر پہاڑوں پر اسے آزمائیں گی۔ انہوں نے اسنو بورڈنگ سکھانی بھی شروع کردی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'میں نے اپنا اسپورٹس کلب شروع کیا ہے جہاں میں لڑکیوں کو ماؤنٹین بائیکنگ اور اسنو بورڈنگ سکھاتی ہوں'۔

ثمر نے اپنی حالیہ کامیابی گزشتہ ماہ ہی حاصل کی ہے۔ انہوں نے نلتر میں ہونے والی سعدیہ خان چیمپئین شپ میں اسنو بورڈنگ کے مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔

ہم نے ان سے سوال کیا کہ اب وہ کیا کرنا چاہتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ 'میں روس اور جارجیا کی سرحد پر موجود یورپ کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایلبرس کو سر کرنا چاہتی ہوں'۔

ثمر نے بتایا کہ 'جب میں نے یہاں اسنو بورڈنگ شروع کی تو پاکستان میں بہت سے لوگ اسے کھیل کے طور پر نہیں جانتے تھے۔ یہاں اسنو بورڈز یا جوتے بھی دستیاب نہیں ہیں۔ جب آپ ایکشن اسپورٹس یا ایڈونچر اسپورٹس کی بات کرتے ہیں تو آپ کو پاکستان میں اس کے لیے کوئی پلیٹ فارم نظر نہیں آتا جبکہ ہمارے پاس 3 بڑے پہاڑی سلسلے ہیں جو کہ ایڈونچر اسپورٹس کے لیے مثالی مقامات ہیں۔ یہاں اس حوالے سے نہ ہی کوئی انفرااسٹرکچر ہے، نہ ہی کوچنگ اور نہ ہی کسی قسم کی سرپرستی۔ امریکا میں اپنی ابتدائی اسنو بورڈنگ کلاسز کے بعد میں نے یوٹیوب ویڈیوز کے ذریعے ہی مزید مہارت حاصل کی۔

'یہاں میں اکیلی ہی اپنی تنظیم کی جانب سے لڑکیوں کو تربیت دے رہی ہوں۔ میں نے اپنی تنظیم کا نام سمر کیمپ رکھا ہے۔ میں معاوضے والے منصوبے بھی کرتی ہوں اور میں اپنے اسپانسر بھی خود تلاش کرتی ہوں۔'

ہمارے سوال کے جواب میں ثمر نے بتایا کہ وہ صرف لڑکیوں کو ایڈونچر اسپورٹس کی تربیت دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'ہمارے ملک میں لڑکیوں پر بہت ساری پابندیاں عائد ہیں اور انہیں بہت کم مواقع ملتے ہیں۔ میں انہیں اسپورٹس میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں، بھلے وہ پروفیشنلی نہ سہی تفریحی طور پر ہی ایسا کریں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں اسپورٹس کا کلچر ہی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن پھر بھی ہم کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں میں 20 ایتھلیٹس تک نہیں بھیج سکتے'۔


یہ مضمون 24 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں