سندھ: پانی کی قلت سے تباہ کن حالات

اپ ڈیٹ 11 جولائ 2022
فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

پانی انسان کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر انسانی زندگی سمیت، جنگلی جیوت، پرندے، جانو اور زراعتت مفلوج ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں کئی برسوں سے پانی کی قلت کے مسائل سامنے آ رہے ہیں، گزشتہ کچھ دنوں سے سندھ بھر میں نہری پانی کی قلت کے باعث صورت حال خطرناک ہوتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف زراعت کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ گھریلو زندگی بھی شدید متاثر ہونے لگی ہے۔

سندھ حکومت کے محکمہ آبپاشی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں نہری پانی کی قلت 36ہزار 643 کے حساب سے 57.7 فیصد ہے اور آنے والے دنوں میں یہ قلت مزید بڑھنے کا امکان ہے.

گزشتہ تین برسوں سے سندھ بھر میں پانی کی قلت نے سندھ کی زراعت، زمین کی نچلی سطح کے پانی، آب و ہوا اور ماحولیات پر بھی بہت ناقص اثرات چھوڑے ہیں۔

پانی کی قلت پر موجودہ صورتحال پر آگے بڑھنے سے پہلے سال 1991 میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے طے ہونے والے معاہدے کا ذکر کرنا لازمی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ میں پانی کی سنگین قلت کے باوجود پنجاب میں دو متنازع نہریں کھول دی گئیں

سال 1991 میں چاروں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کی پانی تقسیم پر ایک معاہدہ تشکیل دیا گیا تھا اس معاہدے کے تحت سندھ کو ربیع اور خریف کی موسم 48.76 فیصد پانی دیا جائے گا مگر کئی برسوں سے اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں قحط کی صورتحال پیدا ہونے لگی ہے اور اس کے برعکس سندھ میں 57.7 فیصد پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس نے کاشتکاروں اور کسانوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کردیا ہے۔

سندھ میں پانی کی رسائی کے لیے سکھر بیراج، گدو بیراج، کوٹڑٰ بیراج شہ رگ کا کام کرتی ہیں مگر موجودہ صورتحال میں وہاں پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔

سندھ کی بیراجوں میں اس وقت پانی کی کیا صورتحال ہے؟

یہاں یہ بات آپ کے علم میں لانا لازم ہے کہ 1991 کے پانی معاہدے کے مطابق سندھ کی تینوں بیراجوں میں ہر دس دن بعد پانی کا اندراج تبدیل ہوتا رہتا ہے رواں ہفتے سندھ کی بیراجوں میں پانی کی صورتحال کچھ اس طرح ہے۔

کوٹڑی بیراج:۔ پانی معاہدے کے تحت کوٹڑی بیراج میں پانی کا اندراج پندرہ ہزار 700 کیوسک ہے جبکہ وہاں سے 5 ہزار 170 کیوسک پانی اخراج ہو رہا ہے اس لحاظ سے کوٹڑی بیراج میں پانی کی قلت 69 فیصد کیوسک ہے۔

سکھر بیراج: پانی کی تقسیم معاہدے کے مطابق سکھر بیراج کو 39 ہزار 500 کیوسک پانی دینا ہے مگر اس کے برعکس سکھر بیراج میں اس وقت پانی 33 ہزار کیوسک تک ہے جس کی وجہ سے وہاں پانی کی قلت 53 فیصد ہے، یاد رہے کہ سکھر بیراج سے نکلنے والی رائیس کینال اور کھیرتھر کینال اس وقت بند ہیں مگر امید کی جا رہی ہے کہ 15 مئی تک ان کو کھولا جائے گا۔

گدو بیراج: گدو بیراج میں معاہدے کے تحت پانی کا اندراج 6 ہزار 500 کیوسک ہونا چاہیے مگر اس کے برعکس گدو بیراج میں اندراج اور اخراج 44 ہزار 375 کیوسک ہے جس کی وجہ سے گدو بیراج سے نکلنے والی چار نہروں میں پانی کا اخراج 6 سو 27 کیوسک ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پانی کی قلت کے سبب فصلوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ

اس صورتحال مین انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے ہر روز اعداد و شمار جاری ہوتے ہیں، ارسا کے اعداد و شمار کے حساب سے کوٹڑی بیراج میں اپ اسٹریم پانی کا بہاؤ 5 ہزار 170 کیوسک ہے، جبکہ ڈاؤن اسٹریم پانی کا بہاؤ 100 کیوسک ہے، اور کینالوں میں پانی کا اخراج 4 ہزار 910 کیوسک ہے۔

اسی طرح سکھر بیراج میں اپ اسٹریم پانی کا بہاؤ 33 ہزار370 کیوسک ہے، جبکہ ڈاؤن اسٹریم پانی کا بہاؤ 12 ہزار 50 کیوسک ہے اور کینالوں میں پانی کا اخراج 21 ہزار320 کیوسک ہے, جبکہ گدو بیراج میں اپ اسٹریم پانی کا بہاؤ 44 ہزار 375 کیوسک اور ڈاؤن اسٹریم پانی کا بہاؤ 43 ہزار 748 کیوسک ہے اور گدو سے نکلنے والی نہروں میں اس وقت 627 کیوسک تک پانی جا رہا ہے۔

پانی کے معاملے پر مسلسل رپورٹنگ کرنے والے سینیر صحافی ممتاز بخاری کا کہنا ہے کہ اس وقت سندھ میں پانی قلت سنگین صورتحال اختیار کر گئی ہے، اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو سندھ میں خریف اور موسم گرما میں ہونے والا فصل جس میں کپاس، چاول، لیموں شامل ہیں وہ سخت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

صحافی ممتاز بخاری کا کہنا ہے کہ سندھ میں پانی کا ایک اہم ذریعہ کابل ندی ہے جس میں اس وقت پانی کچھ بہتر ہوا ہے مگر وہاں سے آنے والا پانی بھی تاحال سندھ میں نہیں پہنچا اور سندھ کا انڈس ریور واٹرس سسٹم اتھارٹی (ارسا) سے یہ اعتراض ہے کہ وہ چشما جہلم کئنال سے 2 ہزار کیوسک پانی پنجاب کو منگلا ڈیم میں زخیرہ کرنے کے لیے دے رہا ہے۔

سندھ میں پانی کے بحران سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ممتاز بخاری نے کہا کہ اب سندھ میں خریف کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے جس کی وجہ سے کپاس، چاول، گنے، کیلے اور لیموں کے کاشتکاروں کو پریشانی کا سامنا ہے۔

’زمینیں آباد کرنا تو دور کی بات، ہم تو پینے کے پانی کے لیے بھی ترس رہے ہیں، زیر زمین پانی مکمل طور پر نمکین ہو چکا ہے، پینے کا پانی بھرنے کے لیے بھی کوسوں دور جانا پڑتا ہے‘ یہ کہنا تھا راجا نوہڑیو کا جو ضلع بدین کی تحصیل گولاڑچی کے مقامی زمیندار ہیں جو 40 ایکڑ زمین کے مالک ہونے کے باوجود بھی مزدوری پر اپنا گذر سفر کرتے ہیں۔

راجہ نے غمزدہ ہوکر بتایا کہ ’میرا گاؤں جس میں کوئی 200 گھر ہیں اور سب کے پاس اپنی اچھی خاصی زمینیں ہیں مگر ہر گھر میں نوجوان روزگار کی تلاش میں کراچی اور حیدرآباد میں مقیم ہیں، نہ ان کی تعلیم مکمل ہوئی نہ ہی زمینیں آباد ہو سکیں، اور اس تمام صورتحال کی وجہ پانی کی قلت ہے، راجہ نے بتایا کہ گزشتہ دو برسوں سے پانی کی قلت نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی لازمی ہے کہ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے بھی پانی کی سنگین قلت پر آواز بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ دریائے سندھ میں پانی کی قلت سنگین قلت ’انتہائی خطرناک‘ صورتحال ہے جس نے صوبے کی آبادی، زراعت، مویشیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

سندھ کے مخلتف شہروں میں اس وقت پانی کی قلت کے خلاف احتجاجی تحریکوں میں بھی تیزی آ گئی ہے، ضلع شھید بینظیر آباد، جو کہ سابق صدر آصف علی زرداری کا آبائی علاقہ ہے، کی تحصیل سکرنڈ سے تعلق رکھنے ڈاکٹر ایاز پرھیار نے بتایا کہ بطور مویشویں کے ڈاکٹر میں پوری تحصیل میں گھومتا رہتا ہوں اور جس علاقے میں بھی جاتا ہوں وہاں لوگ پانی کے بحران پر غم و غصہ میں ہوتے ہیں اور وہ کسی بڑی تحریک کا انتظار کرتے ہیں، ایاز کا کہا کہ اب لوگوں میں پانی پر بے چینی پیدا ہونے لگی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ نے ارسا کے بیراجوں پر نگرانی کے منصوبے کو مسترد کردیا

سیوھن، جو کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا شہر ہے، سے تعلق رکھنے والے نوجوان سجاد ڈیتھو نے بتایا کہ ایشیا کی تازہ پانی کی بڑی جھیلوں میں مار ہونے والی منچھر جھیل اب پانی کی قلت کا سامنہ کر رہی ہے، سجاد نے کہا کہ مقامی لوگ میٹھے پانی کی تلاش میں کوسوں دور جاتے ہیں اور اب پانی کی موجودہ صورتحال سے حالات مزید بگڑنے لگے ہیں۔

پانی کے معاملات پر تحیقی کام کرنے والے اور کالاباغ ڈیم پر کتاب لکھنے والے ماہر آب ادریس راجپوت کا کہنا ہے کہ اس واپڈا اپنے ایک پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے گزشتہ تین مہینوں سے تربیلا ڈیم میں پانی جمع کیا ہے جس کی وجہ سے دریائے سندھ میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اب موسمیاتی تبدیلی کی سے بارشیں کم ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے پانی کا بحران سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے۔

پانی کی موجودہ قلت کا کراچی پر اثر

ہر دن کراچی میں ملک کے بیشتر علاقوں سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں جس کی وجہ سے کراچی میں آبادی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، آبادی بڑھنے سے کراچی میں بجلی، پانی، گیس کی طلب میں اضافہ بھی ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: سسٹم میں بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے سندھ کے تمام بیراجوں میں پانی کی قلت مزید بڑھ گئی

کراچی میں پانی کی قلت کا مسئلا ہمیشہ سے ہی رہا ہے مگر جب سے ٹینکر مافیہ نے زور پکڑا ہے تب سے کراچی میں پینے کا پانی خطرناک صورتحال تک قلت اختیار کر چکی ہے۔

کراچی میں یومیہ پانی کی طلب 1.2 بلین گیلن ہے مگر اس کے برعکس کراچی کو صرف ساٹھ کروڑ گیلن یومیہ پانی ملتا ہے اور وہ بھی پانی کی خراب لائنو، ٹینکر مافیہ کہ وجہ سے منصفانہ بنیاد پرکراچی کے شہریوں تک نہیں پہنچتا۔

###کراچی کو پانی کہاں سے ملتا ہے؟

کراچی کو پانی دھابیجی جھیل، کینجھر جھیل اور حب ڈیم سے ملتا ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے پبلک رلیشن افسر عبدالقادر شیخ کا کہنا ہے کہ اس وقت کراچی میں یومیہ ایک سو کروڑ گیلن پانی کی طلب ہے مگر حاصل ہونے والا پانی 58 کروڑ گیلن ہے،

انہوں نے دعوہ کیا کہ کراچی میں پانی کی قلت نہیں ہے مگر آبادی بڑھنے کی وجہ سے مشکلات پیش آ رہی ہیں، جس میں دھابیجی جھیل کے ذریعے کینجھر جھیل سے 48 کروڑ گیلن یومیہ پانی آتا ہے جبکہ حب ڈیم سے ایک سو کروڑ گیلن یومیہ پانی ملتا ہے، مگر اس وقت جب سندھ بھر میں پانی کی قلت سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے تو کراچی میں بھی پانی کی قلت بڑھنے کا خطرہ سامنے آیا ہے۔

کینجھر جھیل کے اسسٹنٹ انجنیئر نے دو دن پہلے کہا تھا کہ جھیل میں پانی کی سطح ڈیڈلیول کے قریب پہنچ گئی، جھیل میں پانی کی سطح 56 سے کم ہوکر 48 فٹ پر آگئی ہے اور پانی کا لیول 42 فٹ ہونے پر کراچی کو پانی کی فراہمی بند ہوجائے گی، جبکہ سندھ حکوت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کینجھر جھیل میں 47.95 فیصد پانی۔

کراچی میں عام دنوں میں بھی پانی کی قلت موجود رہتی ہے اور خاص طور پر کورنگی، لانڈہی، لیاری جیسے علاقے شدید متاثر ہیں۔


تبصرے (0) بند ہیں