طالبان کے پہلے سالانہ بجٹ میں 5 کروڑ ڈالر سے زائد خسارے کی پیش گوئی

15 مئ 2022
حکام کا کہنا ہے کہ مختلف شعبوں سے ریونیو اکھٹا کیا جارہا ہے— فوٹو: رائٹرز
حکام کا کہنا ہے کہ مختلف شعبوں سے ریونیو اکھٹا کیا جارہا ہے— فوٹو: رائٹرز

طالبان حکام نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کے سالانہ بجٹ میں افغانستان کو 44 ارب افغانیز ( 50کروڑ 10 لاکھ ڈالر) بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم اس بات کی وضاحت نہیں دی گئی کہ متوقع ریونیو اور مقررہ اخراجات کے درمیان فرق سے کس طرح نمٹا جائے گا۔

ڈان اخبار میں شائع خیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اگست کے وسط میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان حکام نے پہلے سالانہ بجٹ کا اعلان کیا ہے۔

اس موقع پر نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی کا کہنا تھا کہ ملک کی آمدنی ایک کھرب 86 ارب 70کروڑ افغانیز ہے جبکہ حکومت کی جانب سے 2 کھرب 31 ارب 40 کروڑ لاکھ افغانیز اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان نے بیرونی امداد کے بغیر افغانستان کا نیا بجٹ تیار کرلیا

وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل کا کہنا ہے کہ ’ کسٹم، وزارتوں اور کان کے متعلق محکموں سے ریونیو کی وصول کی جارہی ہے‘۔

2001 میں امریکی قیادت میں افغانستان پر حملے کے بعد قائم کی گئی مغرب حمایت یافتہ حکومتیں غیر ملکی امداد پر انحصار کرتی تھیں۔

اگست 2021 میں غیر ملکی فورسز نے افغانستان کو چھوڑ دیا جس کے بعد طالبان نے حکومت گراتے ہوئے اقتدار پر قبضہ حاصل کرلیا۔

عالمی سطح پر طالبان کی حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے، ملک ڈوبتی ہوئی معیشت اور سیکیورٹی کے مسائل سے نمٹ رہا ہے جبکہ مدد فراہم کرنے والے ادارے رستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کس طرح طالبان کو فنڈ پر براہِ راست رسائی دیے بغیر 5 کروڑ افغان شہریوں کی مدد کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغانستان کا مستقبل پاکستان کے ساتھ طالبان کے تعلقات، مغربی امداد پر منحصر ہے‘

عبدالسلام حنفی کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کا بجٹ وزارتوں کے کونسل منظور کروالیا گیا ہے اور طالبان کے سپریم رہنما حیبت اللہ اخونزادہ نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے، اس بجٹ پر آئندہ سال فروری تک عمل درآمد کیا جائے گااور اس میں صرف مقامی فنڈز کا استعمال ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقیاتی کاموں کے لیے 27 ارب 90 کروڑ افغانیز مختص کیے گئے ہیں۔

تاہم، انہوں نے دفاع کی طرح مختلف شعبوں پر اخراجات کی تفصیل فراہم نہیں کی۔

نائب وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہم نے تعلیم، ٹیکینکل تعلیم اور ہائیر ایجوکیشن پر غور کیا ہے اور ہماری تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ کس طرح ہر ایک کے لیے تعلیم کی راہ ہموار کی جائے‘۔

طالبان حکام کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں کیے گئے دعوؤں کے باوجود بھی ملک بھر میں اب تک بڑی لڑکیوں کی تعلیم کا عمل اب تک شروع نہیں کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں