طالبان نے بیرونی امداد کے بغیر افغانستان کا نیا بجٹ تیار کرلیا

17 دسمبر 2021
افغان طالبان کی وزارت خزانہ کے مطابق سرکاری ملازمین کو کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملیں—فوٹو: اے پی
افغان طالبان کی وزارت خزانہ کے مطابق سرکاری ملازمین کو کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملیں—فوٹو: اے پی

افغانستان میں برسراقتدار طالبان کی حکومت کی وزارت خزانہ نے دو دہائیوں بعد قومی بجٹ کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے، جو بغیر بیرونی امداد کے تیار کرلیا گیا ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان نے کہا کہ قومی بجٹ کا ڈرافٹ تیار کیا جاچکا ہے اور یہ بغیر بیرونی امداد کے تیار کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: موسم سرما میں 10 لاکھ افغان بچے بھوک سے مرسکتے ہیں، امریکی تھنک ٹینک

افغانستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے اور بدترین بحران کے خدشات کا اظہار کیا جاچکا ہے اور اقوام متحدہ نے غذائی اجناس کی کمی سے خبردار کیا ہے۔

وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل نے ڈرافٹ کی تفصیلات نہیں بتائیں تاہم یہ بجٹ دسمبر 2022 تک ہوگا لیکن انہوں نے بتایا کہ ڈرافٹ شائع ہونے سے قبل منظوری کے لیے کابینہ کو بھیجا جائے گا۔

نیوز چینل کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ‘ہم اپنے مقامی سرمایے سے اس کو فنڈ فراہم کرنے کی کوشش کر رہےہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ایسا کرسکتے ہیں’۔

دوسری جانب افغانستان کو عالمی ڈونرز نے رواں برس اگست میں طالبان کے آنے کے بعد فنڈنگ معطل کردی ہے اور مغربی طاقتیں بیرون ملک موجود اربوں ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کرچکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کیلئے بھارت سے گندم کی اجازت، طالبان کا پاکستان کے فیصلے کا خیرمقدم

افغانستان کا 2021 کا بجٹ سابق حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کی رہنمائی میں تیار کیا تھا، جو 219 ارب افغانی (2.7 ارب ڈالر) امداد اور 217 ارب کے مقامی سرمایے کے باوجود خسارے میں تھا۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈالر کی قیمت 80 افغانی تھا لیکن طالبان کی واپسی کے بعد کرنسی کی قدر مزید گر گئی ہے اور رواں ہفتے کے شروع میں 130 تک چلی گئی تھی تاہم جمعے کو ڈالر کی قدر 100 افغانی ہوگئی۔

احمد ولی حقمل کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کو تاحال کئی ماہ کی تنخواہ نہیں ملی لیکن ہم سال کے اختتام پر بقایاجات کی بہتر ادائیگی کے لیے اپنی تمام تر کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تنخواہوں کا ایک نیا اسکیل بھی تیار کیا جا رہا ہے۔

نئی حکومت کے محکمہ سرمایہ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ڈھائی مہینوں میں 26 ارب افغانی جمع ہوئے تھے، جس میں 13 ارب کسٹم ڈیوٹی بھی شامل تھی۔

محکمے نے غریبوں اور یتیموں کی مدد کے لیے نیااسلامی ٹیکس کا بھی اعلان کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ’امید ہے کہ عالمی سطح پر قبولیت سے افغانستان کے لیے دروازے کھل جائیں گے‘

افغانستان کے ایک ماہر معیشت نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نیا بجٹ جلد ہی ختم ہونے کا امکان ہے جو 2021 کی ایک سہ ماہی کےلیے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘طالبان کہتے ہیں انہوں نے سرحد میں نقل و حرکت پر مزید شفافیت لائی ہے’، جس کا مطلب ہے کہ چند مصنوعات ماضی کے مقابلے میں ڈیوٹی پر دھوکا دے رہی ہیں۔

ماہر معیشت کا کہنا تھا کہ اگر اس کو درست مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ سرمایہ 100 ارب افغانی ہوگا کیونکہ بڑھتے خسارے کے باعث ٹیکس وصولی وسیع ہونے کے بعد محدود ہوگی۔

واشنگٹن میں قائم بین الاقوامی تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ (آئی سی جی) نے رواں ماہ اپنی ایک رپورٹ میں موسم سرما میں 10 لاکھ افغان بچوں کے بھوک سے مرنے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ افغانستان پر پابندیوں میں نرمی کرے تاکہ "ریاستی ناکامی اور بڑے پیمانے پر فاقہ کشی" سے بچا جاسکے۔

آئی سی جی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر مدد نہ کی گئی تو اس موسم سرما میں 10 لاکھ تک افغان بچے بھوک سے مرسکتے ہیں، تھنک ٹینک نے امریکہ، یورپ اور دیگرعطیہ دینے والے ممالک پرزور دیا کہ وہ طالبان حکومت کی توثیق کیے بغیر افغانستان کو تباہ ہونے سے روکنے کے طریقے تلاش کریں۔

دیگر امدادی اداروں نے بھی خبردار کیا ہے کہ افغانستان کو صرف انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنا بہترین طور پر ایک بینڈ ایڈ کی طرح تھا اور یہ کہ افغانستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات افغان ریاست کے خاتمے کو روکنے کے لیے ضروری تھے۔

گزشتہ ماہ ایک کانفرنس میں روس، چین، پاکستان، بھارت، ایران اور پانچ وسطی ایشیائی ریاستوں نے اقوام متحدہ کی فنڈنگ کانفرنس کے لیے مشترکہ درخواست کی، جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے مالی بحران کا بوجھ ان ممالک پر آنا چاہیے جنہوں نے وہاں فوجیں تعینات کیں۔

تبصرے (0) بند ہیں