حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کیلئے عدالت سے رجوع کر رہے ہیں، فواد چوہدری

اپ ڈیٹ 18 مئ 2022
فواد چوہدری نے کہا کہ حمزہ شہباز کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خود استعفیٰ دینا چاہیے تھا—فوٹو: ڈان نیوز
فواد چوہدری نے کہا کہ حمزہ شہباز کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد خود استعفیٰ دینا چاہیے تھا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو ہٹانے کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے جارہے ہیں۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں واضح ہے کہ کوئی بھی پارٹی کے ارکان لوٹے نہیں ہوسکتے اور اگر کوئی رکن پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کے حکم کے خلاف ووٹ دے گا تو وہ شمار نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت ختم ہوگئی ہے، پی ٹی آئی رہنما

ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم فیصلہ ہے، اس کے نتیجے میں لوٹا کریسی کا خاتمہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی کے حمزہ شہباز کے ووٹوں سے 25 ووٹ کی کمی ہوئی ہے، اس وقت پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے پاس اراکین کی تعداد 173 ہے اور حمزہ شہباز کے پاس 172 ووٹ ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق وزارت اعلیٰ کا پہلا انتخاب ختم ہوچکا ہے، حمزہ شہباز کو اس فیصلے کے بعد از خود استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے ایک مہینہ ہمیں یہ بھاشن دیتے ہوئے گزارا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہ کرکے آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

'حمزہ شہباز کے انتظامی فیصلے غلط ہیں'

حمزہ شہباز کو مخاطب کرکے ان کا کہنا تھا کہ کل سے اگر آپ سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف ہیں اور یہاں بطور وزیراعلیٰ براجمان ہیں تو اس کے نتائج ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب نہ ہوتے تو آج حکومت میں ہوتے، فواد چوہدری

انہوں نے کہا کہ آپ پہلے کابینہ نہیں بنا سکے لہٰذا تمام انتظامی فیصلے غلط ہیں اور ان کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا اور دوسرا آپ کی اکثریت اپوزیشن سے کم ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ تیسری بات یہ ہے کہ گورنر پنجاب ان کو تحریک عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے کہیں اور پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ یہاں پر کوئی گورنر ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمرچیمہ قانونی گورنر ہیں لیکن انہیں ایک جوائنٹ سیکریٹری کے احکامات کے تحت معطل کردیا گیا ہے اور نئے گورنر نے چارج نہیں سنبھالا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کل عدالت عالیہ میں درخواست دائر کی جارہی ہے کہ حمزہ شہباز غیرقانونی طریقے سے وزیراعلیٰ ہیں اور ان کو حکم جاری کر کے وزارت اعلیٰ سے فارغ کیا جائے اور پنجاب میں نیا الیکشن کرایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ نئے الیکشن کے نتیجے میں پرویز الہٰی دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہوتے ہیں، ہم چاہتے تو اسپیکر از خود بھی یہ نوٹیفکیشن جاری کردیتا اور اس پر بھی قانونی بحث چلتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انتظامی کارروائی کرنے کے بجائے ہم خود عدالت سے رجوع کریں اور عدالت سے رجوع کریں اور حکم کے ذریعے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ سے الگ کریں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ امید ہے کہ درخواست صبح دائر ہوگی اور اس پر احکامات جلدی ہونے چاہیئں۔

'صدر وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتا ہے'

ان کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے، آج جس طرح ڈالر اوپر چلا گیا ہے اور 40 دنوں میں انہوں نے ہماری معیشت بالکل تباہ کردی ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن لوٹوں کو بچانے کے لیے نکتے ڈھونڈ رہا ہے، عمران خان

انہوں نے کہا کہ ایک مستحکم پاکستان ان نالائقوں کے حوالے سے ہوا اور چند گھنٹے میں ان ڈاکووں نے پورے اس گھر کا بیڑا غرق کردیا اور کھا گئے۔

سابق وزیراطلاعات نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اگلے مرحلے میں پورے ملک میں انتخابات ہوں اور انتخابات کی طرف جلد بڑھنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ مرکز میں اس وقت جو اعداد وشمار ہیں، وہاں پر بھی صدر مملکت کسی بھی وقت شہباز شریف کو اعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتے ہیں کیونکہ شہباز شریف کے پاس اس وقت 172 ووٹ نہیں ہیں۔

'سیاسی بحران حل کیے بغیر معاشی استحکام نہیں ہوگا'

انہوں نے کہا کہ چند لوگ بے وقوفی والی بات کرتے ہیں کہ ہم معیشت ٹھیک کریں گے، معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی کیونکہ پاکستان کا اس وقت بنیادی بحران سیاسی ہے، جب سیاسی بحران ٹھیک ہوگا تو معاشی بحران ٹھیک ہوگا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ عمران خان کو جس طرح غیرقانونی بین الاقوامی سازش کی بھینٹ چڑھایا گیا، اس کا نقصان پاکستان بھگت رہا ہے اور یہ بحران اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سیاسی بحران حل نہیں ہوتا اور اس کے آزادانہ انتخابات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جتنی جلدی انتخابات کی طرف بڑھیں گے، اتنی جلدی استحکام آئے گا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کوئی فیصلے صحیح اور کوئی غلط ہوں گے، اداروں پر ہر کسی کا اعتماد ہوتا ہے، لیکن کبھی فیصلے صحیح اور کبھی غلط ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غلط فیصلوں پر تنقید ہوگی اور صحیح ہیں ان کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

اسٹیبلشمنٹ سے روابط سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوجائے تو روابط کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، کسی سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم تو سمجھتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات پر بھی بات ہوسکتی ہے لیکن پہلی شرط یہی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔

انتخابات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترجیحی طور پر ستمبر میں ہونے چاہیئں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں