مارچ 4 طرح کے ہوتے ہیں، پہلا وہ جو فروری کے بعد آتا ہے، دوسرا مارچ پاسٹ، تیسرا ملین مارچ اور چوتھا لانگ مارچ۔

پہلا مارچ وہ مارچ ہے جو فروری اور اپریل کے بیچ میں آتا ہے اور ہر حال میں آکر رہتا ہے۔ جن جن اصحاب کی اس مہینے میں شادی ہوئی تو شادی کی سالگرہ کے تحفے سے بچنے کے لیے دعائیں کرتے رہ جاتے ہیں کہ 'پیارے مارچ، مارچ پاسٹ کرتا دُور دُور سے نکل جا، یہاں مت آ' لیکن یہ کسی کی نہیں سنتا اور آدھمکتا ہے۔

مارچ پاسٹ سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ جب یہ ہمارے ملک میں جمہوریت کی طرف ہوتا ہے تو جنوری سے دسمبر تک کے درجن بھر مہینے اسی مارچ میں گزر جاتے ہیں۔

اب آتے ہیں ملین مارچ کی طرف۔ جماعت اسلامی کچھ کرے نہ کرے 2 سرگرمیاں باقاعدگی سے انجام دیتی ہے، ایک امیر کا انتخاب اور دوسرا غریب کا ملین مارچ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ ملین نہیں 'ملن مارچ' ہوتا ہے۔ جب جماعت اسلامی والوں کا دل ایک دوسرے سے ملنے کو بہت زور سے چاہتا ہے تو وہ اس مارچ کا انعقاد کرلیتے ہیں۔ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس جماعت کے مارچ میں دعوے کے مطابق ملین یعنی 10 لاکھ افراد آجاتے ہیں تو وہ اپنی پسندیدہ جماعت کو ووٹ دینے کیوں نہیں آتے؟ دراصل ہوتا یہ ہے کہ یہ آنے والے جوش وخروش سے مارچ کرتے ہوئے اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ چناؤ کے سمے لوٹ کر نہیں آپاتے اور جماعت اسلامی کے رہنما ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں کہ 'کہاں سے آیا کدھر گیا وہ'۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا مارچ 'ملین' نہیں 'ملن' مارچ ہوتا ہے— تصویر: فیصل مجیب/وائٹ اسٹار
کہنے والے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا مارچ 'ملین' نہیں 'ملن' مارچ ہوتا ہے— تصویر: فیصل مجیب/وائٹ اسٹار

چوتھا مارچ ہے لانگ مارچ۔ یہ پاکستان میں کبھی بھی ہوسکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ملک میں جمہوری حکومت قائم ہو۔ وردی کی حکمرانی میں اس کا ہونا ممکن نہیں۔ بات یہ ہے کہ جس طرح ایک نیام میں 2 تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک ملک میں 2 مارچ، یعنی مارچ پاسٹ اور لانگ مارچ نہیں ہوسکتے۔

دنیا کا پہلا لانگ مارچ چین کے کمیونسٹوں نے ماؤزے تنگ اور چو این لائی کی سربراہی میں کیا تھا۔ ماؤزے تنگ کا یہ لانگ مارچ اکتوبر 1934ء سے اکتوبر 1935ء تک جاری رہا۔ ہمیں کوئی ماؤزے تنگ میسر نہیں، ہمارے ہاں تو کوئی 'میاں' سے تنگ مارچ کرواتا ہے یا کوئی مولانا فراغت سے تنگ آکر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

پاکستان کے لانگ مارچوں پر قیاس کرتے ہوئے چیئرمین ماؤ کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ انہوں نے حکومت گرانے یا جلدی الیکشن کروانے کا مطالبہ منوانے کے لیے مارچ کیا ہوگا، لیکن پتا چلا کہ نہیں بھیّا انہوں نے تو حکومت سے بچنے کے لیے یہ راستہ چنا تھا۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ چین کے کمیونسٹ نظریے کی حامل پیپلز لبریشن آرمی کو حکمران چینی قوم پرست جماعت 'کومنتانگ' اور اس کے امریکا نواز سربراہ چیانگ کائی شیک کمیونسٹوں کے کٹر مخالف تھے اور ان کا مِلک شیک بناکر پینے کی دُھن میں تھے۔ ان کے شر سے بچنے کے لیے یہ لانگ مارچ کیا گیا۔ ماؤزے تنگ اور چو این لائی کی زیرقیادت کمیونسٹوں نے چیانگ کائی شیک کی فوج سے بچنے کے لیے مغربی اور شمالی چین کا رُخ کیا۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے 370 دنوں میں 9 ہزار کلو میٹر (5 ہزار 600 میل) کا فاصلہ طے کیا۔ اس دوران مارچ میں شامل ہزاروں افراد جان سے گئے اور کل تعداد کا لگ بھگ دسواں حصہ کام میں آگیا۔

تو یہ فرق ہے چینی اور پاکستانی لانگ مارچ میں۔ وہاں حکومت سے بچنے کے لیے لانگ مارچ کرنا پڑا، یہاں لانگ مارچ کے لیے حکومت سے بچنا پڑتا ہے۔ ان کے اور ہمارے لانگ مارچ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ انہوں نے سارا سفر پیدل طے کیا تھا لیکن ہمارے وطن میں یہ مسافت بسوں، کاروں اور موٹرسائیکلوں پر طے کی جاتی ہے، تاہم یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات مارچ کرنے والے محاورتاً 'پیدل' ہوتے ہیں۔

پاکستانی لانگ مارچ کا اختتام دھرنے پر ہوتا ہے۔ جب کسی جماعت کے حامی اور کارکن دھرنے پر بیٹھتے ہیں تو ان کے بیٹھتے ہی جھٹ سے یہ سوال اُٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ یہ کس کا کیا دھرا ہے؟ دھرنے والے اٹھ کے اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں، لیکن سوال کھڑے کا کھڑا رہ جاتا ہے۔

بعض دھرنے امپائر کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں دھرے رہتے ہیں۔ اور جب بڑے انتظار کے بعد بھی انگلی نہیں اٹھتی تو دھرنے والے دانتوں میں انگلی دبائے دبے پاؤں چلے جاتے ہیں۔ اس سب کے بہت بعد انگلی نہ اٹھانے والے امپائر پر انگلی اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اور 'دوسری جانب' من ہی من میں یہ شکوہ ہوتا ہے کہ بھیّا ہم نے انگلی پکڑائی تم پہنچا پکڑنے لگے، امید ہے آپ ہمارے لفظوں کی انگلی پکڑے معنی اور مفہوم تک پہنچ گئے ہوں گے، خیر یہ الگ معاملہ ہے۔

دنیا کے بہت سے ممالک میں لوگ سیاحت کرنے، عیش کرنے اور آرام کرنے جاتے ہیں، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لوگ لانگ مارچ کرنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر علامہ طاہرالقادری۔ علامہ لانگ مارچ 'منانے' پاکستان آتے ہیں۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کے دور میں لانگ مارچ کیا تو حکومت نے معاہدے کے ذریعے انہیں مناکر واپس بھیج دیا۔ اگلی بار وہ نوازشریف کے دور میں لانگ مارچ کرنے پہنچے اور عمران خان کے شانہ بشانہ انقلاب اور شہادت کے اعلانات کے ساتھ مارچ کا آغاز کیا۔ اس بار نہ کسی نے منایا نہ وہ خود مانے، جیسے من مانی کرتے ہوئے آتے تھے ایسے ہی من کی مان کر چلے گئے، اور دیکھنے والے ان کا یہ 'انقلاب' دیکھتے ہی رہ گئے۔

پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے ایک ساتھ لانگ مارچ کو دیکھتے ہوئے یہ کلیہ وضع کیا جاسکتا ہے کہ جس طرح خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، اسی طرح لانگ مارچ کو دیکھ کر لانگ مارچ رنگ پکڑتا ہے، مگر جب امیدیں بر نہ آئیں تو رنگ میں بھنگ پڑجاتا ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک تحریک سے دوسری تحریک کو تحریک ملتی ہے۔

بعض دھرنے امپائر کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں دھرے رہتے ہیں —تصویر: وائٹ اسٹار/فائل
بعض دھرنے امپائر کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں دھرے رہتے ہیں —تصویر: وائٹ اسٹار/فائل

لانگ مارچ کچھ کریں نہ کریں یہ حکومت کی یادداشت ضرور بحال کردیتے ہیں۔ کسی جماعت کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان ہوتے ہی حکمراں کو یاد آتا ہے کہ 'ابے لے، میں تو ملک کا حکمراں ہوں، امن وامان قائم رکھنا میری ذمے داری ہے'۔ چنانچہ لانگ مارچ کے دنوں میں وزیرداخلہ 'وزیرداخلہ بند' ہوجایا کرتا ہے۔

اب ہوتا یہ ہے کہ احتجاج اور اپنے مطالبات کے لیے اسلام آباد کی طرف آنے والوں کو دارالحکومت میں داخل ہونے سے روکنے کی غرض سے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ان میں پہلی رکاوٹ تو پولیس ہے۔ ویسے تو پولیس کا کام جرائم روکنا ہے لیکن اس کے 'کھانے' سے نہ رکنے اور جرم کی اطلاع ملنے پر بھی تھانے میں رکنے کے باعث جرائم رک نہیں پاتے اور 'روک سکو تو روک لو' کہتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ اب دانش مند حکمران کرتے یہ ہیں کہ لانگ مارچ جیسا کوئی مرحلہ آتے ہی اپنے سیاسی مخالفین کو جرائم قرار دے کر پولیس کو انہیں روکنے کی ذمے داری سونپ دیتے ہیں تاکہ پولیس کو جرائم روکنے کی عادت پڑسکے۔ یہ ذمے داری ملتے ہی پولیس سڑک تو سڑک گھروں میں گُھس گُھس کر بھی لانگ مارچ کرنے والی جماعت کے کارکنوں اور رہنماؤں کو روکنا شروع کردیتی ہے۔

سامان کی ترسیل کرنے والے کنٹینر یہاں 'سیاسی سامان' کی ترسیل روکنے کے کام آتے ہیں—فائل فوٹو/ اے ایف پی
سامان کی ترسیل کرنے والے کنٹینر یہاں 'سیاسی سامان' کی ترسیل روکنے کے کام آتے ہیں—فائل فوٹو/ اے ایف پی

دوسری رکاوٹ ہے کنٹینر۔ ہم اشیاء کا وہ استعمال ڈھونڈ لیتے ہیں کہ انہیں ایجاد کرنے والے بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ جیسے ٹائر گاڑی چلانے کے لیے وجود میں آئے ہم انہیں جلانے اور جلا کر گاڑیاں نہ چلنے دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح کنٹینر کا مقصد تجارتی سامان کی نقل وحمل ہے، لیکن ہمارے ملک میں یہ 'سیاسی سامان' کی ترسیل روکنے کے کام آتے ہیں۔ راہ میں کہیں کنٹینر کہیں پولیس کو حائل دیکھ کر لانگ مارچ والوں کو کہیں عبور کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے کہیں بھاگنے کا راستہ چننا پڑتا ہے۔ اس صورت حال میں لانگ مارچ چھلانگ مارچ، پھلانگ مارچ اور بھاگ مارچ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب یہ مارچ کے بھاگ پر ہے کہ آخرکار وہ کیا نام پاتا ہے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (8) بند ہیں

نور May 26, 2022 11:21am
بہت اعلیٰ
adnan May 26, 2022 01:24pm
ماؤزے تنگ اور 'میاں' سے تنگ مارچ واہ بہت خوب عثمان صاحب
usman jamaie May 26, 2022 06:11pm
شکریہ
یمین الاسلام زبیری May 26, 2022 09:59pm
ایک ملک میں 2 مارچ، یعنی مارچ پاسٹ اور لانگ مارچ نہیں ہوسکتے۔ واہ عثمان صاحب اپنی الگ ہی بات رکھتا ہے۔
Murad May 28, 2022 11:28am
Very creative. Ibne Insha ka andaaz hai, mashaAllah.
usman jamaie May 28, 2022 09:01pm
شکریہ
usman jamaie May 28, 2022 09:01pm
شکریہ
usman jamaie May 28, 2022 09:01pm
شکریہ