امریکی قانون ساز پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامی، امریکا مخالف بیان بازی پر احتیاط کا مشورہ

اپ ڈیٹ 30 جون 2022
امریکی قانون سازوں نے  جوبائیڈن انتظامیہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک اہم ملک ہے—فائل فوٹو:اے ایف پی
امریکی قانون سازوں نے جوبائیڈن انتظامیہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک اہم ملک ہے—فائل فوٹو:اے ایف پی

امریکی اراکین پارلیمنٹ نے پاک امریکا تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے جو بائیڈن انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے کے دوران تقریباً ایک درجن امریکی قانون سازوں نے کیپیٹل ہل میں موجود عمارت کی چھت پر ایک میٹنگ کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن سے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک اہم ملک ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس دوران ایک امریکی قانون ساز سینیٹ کے اکثریتی رہنما چارلس ای شومر نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی امریکا مخالف بیان بازی سے پاک امریکا تعلقات کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی بھی پیشکش کی۔

یہ بھی پڑھیں: 'امریکا سے خراب تعلقات پاکستان کیلئے مختلف محاذوں پر مشکلات پیدا کر سکتے ہیں'

اس موقع پر مشی گن سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن قانون ساز کانگریس مین پیٹر میجر نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان 'اقتصادی اور اسٹریٹیجک تعلقات' شروع ہوئے تو ان کے والد نے پاکستان میں کسا وقت گزارا تھا۔

کانگریس مین پیٹر میجر نے کیپیٹل ہل میں منعقد پاکستان-امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (پی اے کے پی اے سی) کے چوتھے سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا مزید کہا کہ اب ہمارے پاس ایک موقع ہے کہ ہم ان تعلقات کو مزید آگے بڑھائیں۔

ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ایک بااثر ریپبلکن قانون ساز کانگریس مین ایڈمرل رونی جیکسن جو امریکی بحریہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ 'تنظیم اور(پی اے کے پی اے سی) کے مقصد کے بڑے حامی ہیں، انہوں نے اس کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی۔

پی اے کے پی اے سی اپنا مقصدپاک-امریکا 'مضبوط تعلقات کی تعمیر نو' بیان کرتا ہے جس نے دونوں ممالک کو آپس کے تعلقات میں جوڑے رکھا جب کہ دونوں ممالک کے تعلقات افغانستان کے معاملے پر کشیدہ ہونے لگے۔

مزید پڑھیں: امریکا، پاکستان سے واضح طور پر فاصلہ اختیار کرچکا ہے، ایڈمرل میولن

اس دوران کئی مقررین نے استدلال کیا کہ افغانستان یا بھارت جیسے کسی تیسرے ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے پاک امریکا تعلقات خراب کرنا ٹھیک نہیں جب کہ پاکستان خود ایک حساس، جوہری خطے میں 22 کروڑ آبادی پر مشتمل ایک اہم ملک ہے۔

انڈیانا سے تعلق رکھنے والے مسلم ڈیموکریٹ کانگریس مین آندرے کارسن نے بھی تنازع کشمیر کے بارے میں بات کی اور امریکا پر زور دیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی، "اختلافات اور تنازعات" کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

سینیٹر چارلس ای شومر جنہوں نے رواں ہفتے کے شروع میں نیویارک میں امریکن پاکستان ایڈووکیسی گروپ (اے پی ڈی جی) کے اجلاس میں بھی اظہار خیال کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی بحالی کی امید ظاہر کی تھی، انہوں نے اس موقع پر تقریر کے دوران اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ پاکستان کبھی امریکا کا اہم اتحادی تھا۔

سینیٹر چارلس ای شومر نے حاضرین اجتماع کو یاد دلایا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کے بارے میں مثبت بات نہیں کی جب کہ موجودہ پاکستانی وزیر اعظم سے توقع ہے کہ وہ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے میں مدد کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کے پاس پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، ٹام ویسٹ

پاکستان کی اندرونی سیاست میں امریکی مداخلت کے عمران خان کے الزام کے جواب میں سینیٹر چارلس ای شومر نے کہا کہ امریکا اپنی پالیسیاں کسی انفرادی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر نہیں بناتا۔

اس سوال پر کہ اگر عمران خان دوبارہ منتخب ہوتے ہیں تو واشنگٹن کا کیا ردعمل ظاہر کرے گا، سینیٹر چارلس ای شومر نے کہا کہ جو بھی منتخب ہو گا ہم اسے قبول کریں گے اور اس کے ساتھ کام کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چاہے آپ کسی سے کتنا ہی شدید اختلاف کریں، مسئلہ کو حل کرنے کا بہترین طریقہ بات چیت اور مذاکرات ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں