امریکا: اوہائیو میں پولیس کی فائرنگ سے غیرمسلح سیاہ فام شہری ہلاک

04 جولائ 2022
امریکی پولیس نے غیر مسلح سیاہ فام شخص کو قتل کردیا —فوٹو: رائٹرز
امریکی پولیس نے غیر مسلح سیاہ فام شخص کو قتل کردیا —فوٹو: رائٹرز

امریکی ریاست اوہائیو کے شہر اکرون میں سیاہ فام شہری کی 60 گولیاں لگی ہوئی لاش برآمد ہونے کے بعد جاری ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شہری ٹریفک اسٹاپ سے بھاگتا ہے اور 8 پولیس اہلکار فائرنگ کر رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے دوران پریس کانفرنس متعدد وڈیوز چلائیں جن میں سے ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کار سے فائرنگ ہو رہی ہے اور وہ گاڑی 25 سالہ جے لینڈ واکر نامی شخص چلا رہا تھا۔

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر پولیس نے ان کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کی سیاہ فام شخص کے قتل کیخلاف مظاہروں پر فوجی کارروائی کی تنبیہ

پولیس کی طرف سے کچھ وقت پیچھا کرنے کے بعد جے لینڈ واکر نے کار سے باہر چھلانگ لگائی اور پولیس کے گھیرے سے بھاگنے لگا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ وڈیو میں ایسا لگتا ہے کہ وہ پولیس کی طرف بھاگا جس پر پولیس نے سوچا کہ وہ مسلح ہو سکتا ہے اور بعدازاں اس کی گاڑی سے اسلحہ بھی برآمد ہوا تھا۔

اتوار کے روز جے لینڈ واکر کی فیملی کے وکیل بوبی ڈیسیلو نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ پولیس کے اس الزام کے بارے میں بہت فکر مند ہیں کہ واکر نے اپنی کار سے افسران پر گولی چلائی تھی، ان کی پرتشدد موت کا کوئی جواز نہیں ہے۔

وکیل نے کہا کہ پولیس واکر کو بندوق کے ساتھ ایک نقاب پوش مجرم میں تبدیل کرنا چاہتی ہے، میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر وہ بھاگ رہا تھا تو اس کی کیا دلیل ہے، کیا اسے گولی مارنا مناسب تھا، نہیں، یہ ہرگز مناسب نہیں ہے۔

ڈی سیلو نے عوام پر زور دیا کہ وہ واکر کے قتل کے خلاف مظاہروں میں پرامن رہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہ واکر کے خاندان کی خواہش تھی کہ وہ مزید تشدد سے گریز کریں۔

سیاح فام شہری واکر کا قتل امریکا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جانب سے سیاہ فام مردوں اور خواتین کی ہلاکتوں کے سلسلے کا ایک نیا واقعہ ہے جس کو ناقدین نے نسل پرستانہ اور بلاجواز قتل قرار دیا ہے، جس طرح منیاپولس میں جارج فلائیڈ کو 2020 میں قتل کیا گیا تھا، جس سے پولیس کی بربریت اور نسلی تفریق کے خلاف عالمی سطح پر احتجاجی مظاہروں نے جنم لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: سیام فام شخص کے قتل کے الزام میں پولیس افسر کےخلاف مقدمہ

اتوار کو نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل کی اکرون شہر میں انتظامیہ نے سٹی ہال میں ایک پرامن احتجاج کی قیادت کی جہاں تقریباً 2 لاکھ افراد کے شہر کی سڑکوں پر سینکڑوں مظاہرین نے ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے جھنڈے لہرائے جس میں ’ہم مر چکے ہیں‘ اور ’جسٹس فار جے لینڈ‘ کے نعروں سے شہر گونج اٹھا۔

بعدازاں میڈیا نے بتایا کہ پولیس نے اکرون پولیس ہیڈکوارٹرز کے باہر احتجاج کو غیر قانونی مظاہرہ قرار دیا، ایک ٹی وی چینل نے کہا کہ ہنگامہ آرائی میں موجود افسران نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے تقریباً ایک درجن گولے فائر کیے، اکرون پولیس نے فوری طور پر اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔

یہ واضح نہیں ہوسکا کہ واکر کو کتنی گولیاں لگی تھیں لیکن کیمرے کی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس نے اس پر لگاتار گولیاں چلائیں۔

اکرون پولیس چیف اسٹیفن مائیلیٹ نے کہا کہ طبی معائنہ کرنے والا افسر ابھی تک اس بات کا تعین کر رہا ہے کہ 60 زخموں میں سے کتنے داخلی اور کتنے آرپار ہونے والے زخم تھے۔

اسٹیفن مائیلیٹ نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے واکر کو گولی لگنے کے بعد ابتدائی طبی امداد دینے کی کوشش کی لیکن وہ جائے وقوع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ فائرنگ میں براہ راست ملوث 8 افسران کو تنخواہ کے ساتھ انتظامی معطلی پر بھیجا گیا ہے اور انہوں نے کوئی انفرادی بیان نہیں دیا۔

اسٹیفن مائیلیٹ نے کہا کہ افسران کا کہنا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ جب واکر اپنی کار سے باہر نکلا تو وہ فائرنگ پوزیشن لے رہا ہے، جس نے انہیں ممکنہ خطرے کے پیش نظر جوابی فائرنگ پر مجبور کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں پولیس گردی کےخلاف سیاہ فام سراپا احتجاج

میڈیا نمائندوں کے ذریعے اس ثبوت کے لیے دباؤ ڈالا گیا کہ واکر نے اپنی کار سے فائرنگ کی تھی، اسٹیفن مائیلیٹ نے کہا کہ بعدازاں پولیس اس علاقے میں واپس آگئی جہاں ان کا خیال ہے کہ واقعے کے بعد واکر نے اپنی کار سے فائرنگ کی تھی اور ان کو گولی کا ایک خول ملا ہے جو اس اسلحے سے مطابقت رکھتا تھا جو واکر کی گاڑی میں موجود تھا۔

پولیس نے ویڈیو میں واکر کی گاڑی کے ڈرائیور کی طرف سے روشنی کی چمک کی طرف بھی اشارہ کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مزل فلیش تھا۔

فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کرنے والے اوہائیو کے بیورو آف کریمنل انویسٹی گیشن نے ان تفصیلات میں سے کسی کی تصدیق نہیں کی۔

تبصرے (0) بند ہیں