چین کا 'زلزلے سے متاثرہ افغانستان' کیلئے تجارت اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2022
افغانستان کے قائم مقام وزیر برائے ڈیزاسٹر منیجمنٹ اور چینی سفارتکار نے معاہدے پر دستخط کیے— فوٹو: اے ایف پی
افغانستان کے قائم مقام وزیر برائے ڈیزاسٹر منیجمنٹ اور چینی سفارتکار نے معاہدے پر دستخط کیے— فوٹو: اے ایف پی

چین کے سفیر نے افغانستان کے لیے تجارتی اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان کردیا جو طالبان کی حکومت میں کاروبار کرنے کے لیے عالمی سطح پر کسی ملک کی جانب سے توثیق ہے جہاں مغربی ممالک کی پابندیوں کے باعث بدترین زلزلے کے بعد انسانی المیہ جنم لینے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق کابل میں طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر برائے ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چینی سفارت کار وینگ یو نے 80 لاکھ ڈالر امداد کا اعلان کیا، یہ رقم 22 جون کو زلزلے کے ریلیف کے لیے دی جا رہی ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانیت کے لیے ہنگامی امداد کے علاوہ، گزشتہ سال سیاسی تبدیلی اور زلزلے کے بعد ہمارے پاس اقتصادی تعمیر نو کے طویل المدتی منصوبے ہیں، جس میں تجارت کو ترجیح دی جائے گی، جس کے بعد سرمایہ کاری اور زراعت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری پر زلزلہ زدہ افغانستان کی مدد کرنے کیلئے زور

طالبان حکومت کو اب تک کسی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، جنہوں نے پچھلے سال اقتدار پر قبضہ کیا تھا کیونکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے 20 سالہ جنگ لڑنے کے بعد اچانک اپنی افواج کا انخلا کیا تھا۔

مغربی ممالک کا کہنا تھا کہ افغانستان سے پابندیاں اسی صورت میں ہٹائی جا سکتی ہیں، جب یہ گروپ ہماری شرائط پورا کرے جن میں خواتین اور لڑکیوں کو حقوق دینا شامل ہے کہ وہ اپنے مطابق زندگی بسر کرسکیں، مغربی ممالک کی جانب سے افغانستان پر پابندیوں میں غیرملکی اربوں ڈالر کے ذخائر منجمد کرنا بھی شامل ہے۔

چین کی ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے، وہ اپنے بڑے منصوبے 'بیلٹ اینڈ روڈ' پر سرمایہ کاری کے حوالے سے ہمسایہ ممالک میں اثر و رسوخ رکھتا ہے اور افغانستان پر پابندیاں ہٹانے کا مسلسل مطالبہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں 6.1 شدت کا زلزلہ، ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار ہوگئی

وینگ یو نے بتایا کہ کان کنی کے دو بڑے منصوبوں پر مذاکرات جاری ہیں، جس میں جنوبی افغانستان میں تانبے کی ایک کان 'میس عینک' بھی شامل ہے، اس کے حقوق چین کی سرکاری کمپنی کے پاس ہیں، جس کا معاہدہ گزشتہ افغان حکومت کے ساتھ ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان معدنی ذخائر سے مالا مال ہے، جس میں لوہے اور تانبے کے بڑے ذخائر بھی شامل ہیں۔

گزشتہ ہفتے طالبان انتظامیہ اور سپریم لیڈر نے ایک اجتماع میں کہا تھا کہ ملک کو غیرملکی امداد پر انحصار کم کرنے اور کاروبار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

مغربی بینکوں میں افغانستان کے منجمد اثاثوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وینگ لو کا کہنا تھا کہ چین ہمیشہ سمجھتا ہے کہ یہ پیسہ افغانستان کے عوام کا ہے، چین ہمیشہ عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ منجمد فنڈز جاری کیے جائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں