قومی اسمبلی: عدالتی اصلاحات کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی قرارداد منظور

اپ ڈیٹ 28 جولائ 2022
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔

عدالتی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے لیے قرارداد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں پیش کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد کرنے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالتی فیصلے سے حصول انصاف کے لیے توقعات کو دھچکا لگا ہے۔

جبکہ وفاقی حکومت میں شامل تمام جماعتوں نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں مسترد ہونے پر چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔

حکومتی اتحاد کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت، وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو تجویز دی تھی کہ عدالتی اصلاحات کے حوالے سے ازسرنو قانون سازی کی جائے۔

قراردار میں بتایا گیا ہے کہ قوانین کی منظوری اور آئین میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کا حق ہے، آئین انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات تقسیم کرتا ہے۔

مزید کہا گیا کہ ریاست کا کوئی بھی ستون ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

جبکہ آرٹیکل 175 اے کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کی توثیق بھی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔

مزید بتایا گیا کہ پارلیمنٹ عوامی امنگوں کی نمائندہ ہے، اور پارلیمنٹ کسی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز کی اجازت نہیں دے گی۔

قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کا بل میں بھی قومی اسمبلی میں پیش

قومی اسمبلی میں قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 میں ترمیم کا بل میں پیش کیا گیا۔

قومی احتساب آرڈیننس میں دوسری ترمیم کا بل وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر ملک شہادت اعوان نے پیش کیا۔

19 جولائی کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قومی احتساب آرڈیننس میں ترمیم کے خلاف درخواست پر ریمارکس دیے تھے کہ میری ذاتی رائے ہے کہ یہ معاملہ واپس پارلیمنٹ کو جائے گا، اس قانون پر حکم امتناع نہیں دے سکتے۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی کو ہدایت کی جائے کہ دو سے تین روز میں اس بل کو فائنل کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی معاملات میں احتساب عدالتوں میں مشکلات ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے قوانین کی اشاعت سے متعلق ترمیمی بل 2022 بھی پیش کیا گیا۔

اسی طرح اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی ترمیمی بل 2022 بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔

'فسطائیت کا مقابلہ کریں گے لیکن جھکیں گے نہیں، شہباز شریف'

وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے، ہم پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے، ہم عمران خان کی فسطائیت کا مقابلہ کریں گے لیکن جھکیں گے نہیں، جو ذمہ داری مجھے ملی ہے، جب تک پارٹی قائد اور اتحادی جماعتوں کے قائدین کا اعتماد ہے، میں اپنی کوششیں کرتا رہوں گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ 2018 کی حکومت تاریخ کی بدترین دھاندلی کی پیداوار تھی — فوٹو: ڈان نیوز
شہباز شریف نے کہا کہ 2018 کی حکومت تاریخ کی بدترین دھاندلی کی پیداوار تھی — فوٹو: ڈان نیوز

اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان طوفانی بارشوں نے ہر جگہ تباہی پھیلائی، بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب، چترال، کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں بے پناہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور بے پناہ نقصانات ہوئے، اللہ سے دعا ہے کہ جانے والوں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور زخمیوں کو جلد سے جلد صحت عطا فرمائے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت چوکنا ہے، اس صورتحال کے حوالے سے چاروں صوبوں کے ساتھ اجلاس کر چکا ہوں، جہاں لوگ زخمی ہیں اور لوگ اللہ کو پیارے ہوئے اور جہاں مالی نقصانات ہوئے، وہاں پر صوبائی حکومتیں پوری طرح دن رات کام کر رہی ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وفاق نے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ذریعے امدادی کارروائیوں میں بھرپور طریقے سے وفاقی حکومت شریک ہے، نقصان زیادہ ہے، جو لوگ اللہ کو پیارے ہو گئے ان کے لیے کسی بھی حد تک مالی تعاون سے ان کے دل کی تسلی نہیں ہوسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے سے حصول انصاف کیلئے توقعات کو دھچکا لگا ہے، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی حکومت قطعاً کسی بھی طرح پیچھے نہیں رہے گی، جو ہم نے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اس میں مزید اضافہ کریں گے، کل ہی ایک اور اجلاس بلایا ہے، جس میں متعلقہ اراکین قومی اسمبلی، متعلقہ ادارے اور سرکاری افسران شامل ہوں گے، تمام معزز اراکین کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی سفارشات کے پیش نظر کر ہم مزید فیصلے کریں گے۔

'بارشوں سے جہاں بھی نقصانات ہوئے، ان کا مداوا کریں گے'

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کسانوں کو جو نقصان ہوا ہے، اس حوالے سے بھی بھرپور کردار ادا کریں گے، وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر جو کچھ کرسکتی ہے وہ کریں گے، پورے پاکستان میں جہاں پر بھی نقصانات ہیں ان کا مداوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ انسانی فطرت ہے کہ جب بچے کو تکلیف ہوتی ہے تو ماں بچے کی طرف دوڑتی ہے اور بچہ ماں کی طرف آتا ہے، یہ معزز ایوان پاکستان کے آئین کی ماں ہے، 1973 کا متفقہ آئین ہے، جس میں پورے پاکستان کی منتخب لیڈرشپ شامل تھی، اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی لیڈرشپ میں پاکستان بھر سے منتخب اراکین نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ اس آئین کی تشکیل کی، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ آئین پاکستان کی وحدت کی بہت بڑی نشانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بدترین وقتوں میں بھی اسی آئین نے پوری دنیا کے سامنے مضبوط و متحد ملک کے طور پر پیش کیا، یہی آئین صدیوں تک پاکستان کی رہنمائی کرتا رہے گا، پاکستان کو مضبوط کرتا رہے گا۔

'آئین بتاتا ہے کہ اپنے دائرے میں رہ کر پاکستان کی خدمت کرنی ہے'

وزیر اعظم نے کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، وہی مالک اور خالق ہے اس نے جو اختیار انسانوں کو دیا ہے اور 22 کروڑ عوام نے اس منتخب ایوان کو دیا ہے، یہ وہ اختیار ہے جسے مقدس امانت جان کر یہ ایوان اس کو استعمال کرتا ہے، مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ ہو، آئین نے ان کے اختیارات متعین کر دیے ہیں، آئین بتاتا ہے کہ اپنے دائرے میں رہ کر پاکستان کی خدمت کرنی ہے اور پاکستان کو آگے بڑھانا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم، ان کی کابینہ کو عہدوں سے ہٹانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست

ان کا کہنا تھا کہ 75 سال گزرنے کے باوجود آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا، ملک میں ایک سے زائد بار مارشل لا آئے، جو کئی دہائیوں تک ملک پر مسلط رہے، جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا، اور جمہوریت کا پودا اتنا طاقتور نہ ہوسکا جتنا ہونا چاہیے تھا، پارلیمان کی طاقت اس طرح ابھر کر سامنے نہ آسکی جس طرح اس کو آنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ قرب و جوار میں نظر دوڑائیں تو وہ ممالک جو بہت پیچھے تھے، آج ترقی کی دوڑ میں وہ آگے نکل چکے ہیں، اغیار نے آئی ایم ایف کو کبھی کا خیرباد کہہ دیا، غربت اور بیروزگاری کو انہوں نے دفن کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات پاکستان کی تاریخ میں بدترین جھرلو الیکشن تھے، ایک ایسی حکومت کو مسلط ہو گئی جو صریحاً دھاندلی کی پیداوار تھی، اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ کس طرح رات کے اندھیرے میں آر ٹی ایس سسٹم بند ہوگیا اور کس طرح نتائج وہ دیہاتوں میں پہلے آگئے اور شہروں میں کئی کئی دن نتائج نہیں آئے، امیدواروں کا جو حق تھا اس کو سابق چیف جسٹس کے حکم پر گنتی کو رکوایا گیا، وقت پر گنتی نہ ہوئی۔

'2018 کی حکومت تاریخ کی بدترین دھاندلی کی پیداوار تھی'

انہوں نے کہا کہ 2018 کی حکومت تاریخ کی بدترین دھاندلی کی پیداوار تھی، ساڑھے تین، پونے چار سالوں میں ان کی کارکردگی قوم کے سامنے ہے، انہوں نے 20 ہزار ارب روپے سے زائد کے قرضے لیے، 2018 میں جی ڈی پی 5.8 فیصد تھی، 2019 اور 2020 میں منفی ہوگئی، لاکھوں لوگوں کو روزگار دینا تو دور کی بات تھی، لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، لاکھوں لوگ بیروزگار ہو گئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا جنازہ نکل رہا تھا، اس وقت متحدہ اپوزیشن سیاست کو مقدم رکھتی تو ریاست کا خدا حافظ تھا، ہم سب نے مل کر مشاورت کی، فیصلہ کیا کہ ریاست کو بچانا ہے، ریاست کو نہ بچایا تو سیاست صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی، ہم جانتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، جانتے تھے کہ معیشت کو بحال کرانا آسان کام نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے تھے کہ مہنگائی، بیروزگاری عروج پر ہے، کیا ہم چور دروازے سے آئے؟ یہ پہلا موقع ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس پر کسی نے چڑھائی نہیں کی بلکہ ایوان اور ووٹ کی طاقت سے آئین اور قانون کے مطابق بدترین کرپٹ حکومت کو بدلا اور چیلنج قبول کیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اہداف حاصل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا

انہوں نے کہا کہ ڈنکے کی چوٹ پر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے پتا تھا کہ حکمراں اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے کمال مہربانی سے، چاہے آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، خالگ مگسی، خالد مقبول صدیقی یا اے این پی کے قائدین ہوں، چاہے وہ اختر مینگل صاحب، محسن داوڑ صاحب یا اسلم بھوتانی صاحب ہوں، سب نے مل کر بڑی محبت سے اور میرے قائد نواز شریف نے مجھے منتخب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جانتا تھا کہ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ کانٹوں کا ایک بہت خاردار سفر ہے، اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ان کی معاونت قبول کی، وزیر اعظم بننا ہوتا تو ماضی میں 1992 میں ایک صدر نے کہا تھا کہ تم وزیراعظم بن جاؤ، بعد ازاں جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ وزیراعظم بن جاؤ، اس کے علاوہ بھی ایسے راز ہیں جو میرے دل میں دفن ہیں۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جب پاناما کے بدلے اقامہ میں ناجائز سزا دی گئی تو ایک قانونی اور آئینی مجبوری تھی کہ کسی کو وزیر اعظم منتخب کرنا تھا، انہوں نے مجھے چنا، لیکن میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے پنجاب کے عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے، میں پنجاب کے منصوبوں کو مکمل کرلوں۔

انہوں نے کہا کہ اگر عدالت بلائے تو ہمیں جانا چاہیے اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن فیصلہ انصاف اور حق کی بنیاد پر کرنا ہوگا، یہ نہیں ہوسکتا کہ میرے ساتھ کوئی اور برتاؤ کریں اور کسی کے ساتھ کوئی اور برتاؤ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت سے ہم نے جان چھڑوائی، کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کرپشن کی سب سے زیادہ سطح پی ٹی آئی کی حکومت میں تھی، ہم نے دوست ممالک ترکی، سعودی عرب، چین کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور پھر یہ کہتے ہیں کہ امپورٹڈ حکومت ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ جب عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مل کر آئے تھے تو کہا تھا کہ میں ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ میں نے کہا کہ اگر روس سے ہم سستی گندم ملتی ہے تو بہت اچھی بات ہے، میں نے ان ممالک کو بھی بتا دیا کہ ہم نے پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بچانا ہیں، پرسوں ان کی جانب سے پیشکش آئی ہے، ہم نے ان سے کہا ہے کہ ہم مؤخر ادائیگی پر گندم خریدیں گے۔

'عمران خان نے اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ لی'

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی ایجنٹ یہ ہیں، چیف الیکشن کمشنر ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے، اس کیس کو 8 سال ہو چکے ہیں، اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ عمران خان نے منگوائی، 8 سال سے یہ کیس موجود ہے کسی نے ازخود نوٹس لیا، پونے چار سالوں میں ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جس کا مقصد تھا کہ پوری اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر ان کا نام و نشان مٹا دے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بی آر ٹی پشاور میں اربوں کے غبن ہوئے، ہیلی کاپٹر کیس، مالم جبہ کیس اور اس کے علاوہ مونس الہٰی کا کیس نیب کرتا ہے، کسی نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا، بیٹیاں، بہنیں گرفتار کی گئیں، کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا، سابق وزیراعظم کی سگی بہن کے غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو خاموشی سے ایف بی آر سے این آر اور دلوایا جاتا ہے، کوئی نوٹس نہیں لیتا۔

انہوں نے کہا کہ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ 'کفر کا نظام رہ سکتا ہے لیکن بے انصافی کا نظام نہیں چل سکتا۔'

'ایک لاڈلے کو 15 سال دودھ پلایا گیا'

شہباز شریف نے کہا کہ میں ایوان کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آج ہم نے سچ کو سچ نہ کہا تو مملکت خداداد شدید مشکلات میں گھر جائے گا، میرے منہ میں خاک، پھر جب مؤرخ اس ملک کی تاریخ لکھے گا تو پھر آئندہ آنے والی نسلیں اس پر فیصلے دیں گی، ایک لاڈلے کو 15 سال دودھ پلایا گیا اور اس کو لاکر بٹھایا گیا، ادارے دن رات اس کے لیے وہ کام کرتے تھے کہ آج ہم سوچتے ہیں تو عقل حیران ہوتی ہے، 75 سال میں کسی کو ایسی سپورٹ نہیں ملی اور نہ کبھی کسی کو ملے گی۔

مزید پڑھیں: پاکستان دیوالیہ ہونے کی جانب نہیں جا رہا، حکومت کی یقین دہائی

ان کا کہنا تھا کہ تیل و گیس کی قیمتیں میرے اختیار میں نہیں، مہنگائی میں ضرور اضافہ ہوا ہے، 3 ڈالر میں گیس مل رہی تھی سابق حکومت نے نہیں خریدی، آج ڈھونڈنے سے بھی گیس نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ ایک پارٹی کے لیڈر نے کہا کہ ہنڈی سے پیسہ لاؤ، بجلی کے بل جلا دو، ٹیکس نہ دو، یہ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے، کسی نے اس پر نوٹس نہیں لیا، ستمبر 2014 میں چینی صدر آرہے تھے تو منتیں کیں کہ تین دن کے لیے یہاں سے ہٹ جاؤ حتیٰ کہ مقتدر ادارے نے بھی کردار ادا کرنے کی کوشش کی، انہوں نے دھرنا ختم نہیں کیا، تو کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مارچ میں ڈپٹی اسپیکر، صدر پاکستان اور عمران نیازی نے مل کر دھوکے سے اسمبلی تحلیل کرنے کی کوشش کی، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے آئین شکنی کی لیکن انہیں کسی نے نہیں بلایا، پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کارروائی کرتے ہیں، ان کو بلایا جاتا ہے، اگر اس طرح معاملات چلتے رہے تو قائد کی روح ہمیشہ کے لیے تڑپتی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر تقدس، مساوات، قانون، آئین اور انصاف کو آگے نہ بڑھایا تو ہمیں تاریخ میں کوئی یاد نہیں رکھے گا، خدانخواستہ تاریخ کے اوراق سے ہمارا نام مٹ جائے گا، ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے انٹرویو میں کہا کہ مجھے عمران نیازی نے بلا کر کہا تھا کہ شہباز شریف، خواجہ آصف، آصف زرداری، مریم نواز سمیت فلاں فلاں کے خلاف کیس کرو، انہوں نے کہا کہ میں نہیں کرتا، لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی ان کو بلا کر نہیں پوچھا۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی و اقتصادی صورتحال پر تبادلہ خیال کیلئے وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب

ان کا کہنا تھا کہ میں دہرے معیار کی بات کر رہا ہوں، میں ایوان کو گواہ بنا کر کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے، ہم پاکستان کو عظیم تر بنائیں گے، ہم اس کی فسطائیت کا مقابلہ کریں گے لیکن جھکیں گے نہیں، جو ذمہ داری مجھے ملی ہے، جب تک پارٹی قائد اور اتحادی جماعتوں کے قائدین کا اعتماد ہے، میں اپنی کوشش کرتا رہوں گا، نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اگر ہم میں اتحاد اور یکسوئی رہی تو اللہ تعالیٰ کشتی کو پار لگائے گا اور اگر ہم میں یہ جذبہ رہا کہ لڑیں گے لیکن شکست نہیں مانیں گے۔

افسوس ہے کہ نیا 58 (2) بی عدالت کے پاس چلا گیا، بلاول بھٹو

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک نیکسز پیدا ہوا کہ کیسے اس ملک کو واپس اس پوائنٹ پر لائیں کہ کنٹرولڈ جمہوریت چلائیں، جب صدر پاکستان کے پاس 58 (2) بی کا اختیار نہیں رہا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نیا 58 (2) بی عدالت کے پاس چلا گیا۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے حوالے سے ایک فیصلہ سنایا، اہم آئینی، انتظامی اور سیاسی معاملات پر بات کررہے تھے، آپ کے سامنے تمام سیاسی جماعتیں کھڑی ہیں، ہم ایکس، وائے کر کے کسی ادارے کو دباؤ میں ڈالنے کی کوشش نہیں کررہے تھے کہ ہماری مرضی کا فیصلہ کریں، ورنہ ہم خدانخواستہ کتنے حصے کر دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے صرف اتنی گزارش کی تھی کہ جب ایک ادارہ دوسرے ادارے کے بارے میں فیصلہ دے رہا ہے تو پھر فل کورٹ کا بینچ بیٹھ کو فیصلہ کرے، ان کا جو بھی فیصلہ ہو گا ہم اسے تسلیم کریں گے، یہ مطالبہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے نہیں تھا، پچھلی حکومت نے آئین کو توڑا، اس وقت بھی ہماری سپریم کورٹ سے یہی درخواست تھی کہ یہ آئینی مسئلہ، اور جمہوریت کے مستقبل کا سوال ہے، تو فل کورٹ بینچ بنائے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فل بینچ اس وقت بھی نہیں بنا اور نہ اب بنایا گیا، فل کورٹ بینچ اس لیے ضروری تھی کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کا کام آئین کی تشریح کرنا اور انصاف فراہم کرنا ہے، 1973 کا آئین بنانے میں تیس سال لگے، 1973 میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر متفقہ آئین پیش کیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس آئین کو توڑنے میں تمام ادارے ملوث تھے، ہمیں اس آئین کی بحالی کے لیے دوبارہ 30 سال جدوجہد کرنا پڑی، شہید بے نظیر بھٹو نے اسی ایک نعرے کے ساتھ 30 سال جدوجہد کی کہ 1973 کا آئین بحال کرو، ہم نے 2008 سے 2013 کی حکومت کے دوران 1973 کے آئین کو اٹھارہویں ترمیم کرکے بحال کیا۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے، ہم نے صدر پاکستان سے بھی آمرانہ طاقتیں سلب کیں اور پارلیمنٹ کو سارے اختیارات دیے، ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تاکہ سپریم کورٹ آزاد ہو، تاکہ اس ملک کے تمام صوبوں کو ان کا حق ملے۔

بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک نیکسز پیدا ہوا کہ کیسے اس ملک کو واپس اس پوائنٹ پر لائیں کہ کنٹرولڈ جمہوریت چلائیں، جب صدر پاکستان کے پاس 58 (2) بی کا اختیار نہیں رہا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نیا 58 (2) بی عدالت کے پاس چلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 2008 سے 2013 تک کوشش کی کہ دہشت گردی کو کیسے ختم کریں، معاشی بحران پر کیسے قابو پائیں، ہر دن عوام کے مینڈیٹ، جمہوریت اور پارلیمان پر حملے ہوتے رہے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے جدوجہد کی، اسی چیف جسٹس نے کسی کے ہاتھ میں آکر پارلیمان اور حکومت کے خلاف ایسے فیصلے دیتے تھے جو آئین پر مبنی نہیں تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں