دورہ پاکستان: کرزئی مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں گے

کابل: شدت پسندوں سے دوبارہ امن مذاکرات کے خواہاں افغان صدر حامد کرزئی پیر سے پاکستان کا دورہ کریں گے اور اس دوران وہ پاکستان سے مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں گے۔
آئندہ سال افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات اور 2014 کے اختتام پر 87 ہزار نیٹو افواج کے انخلا سے قبل تنازع کے خاتمے کیلیے پاکستان کا پڑوسی ملک میں کردار انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
فروری میں برطنیہ میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی تھی تاہم اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات شدید متاثر رہے ہیں۔
پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر داؤد زئی نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ کرزئی کے دورے میں طالبان قیدیوں کی رہائی اور افغان حکومت کی زیر قیادت امن مذاکرات کے افغان مطالبے میں پیش رفت ہو گی۔
افغان اعلیٰ امن کونسل کے رکن محمد اسمئعیل قاسم یار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم پاکستان میں قید سب سے اہم اور سینئر طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کی کوشش کریں گے۔
پاکستان نے گزشتہ سال دو قسطوں میں 26 طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا جس میں شدت سپند کے سابقہ وزیر انصاف نور الدین ترابی بھی شامل تھے اور افغان امن مذاکرات کاروں نے اس کو سراہتے ہوئے اسے جنگ کے خاتمے کیلیے اہم پیشرفت قرار دیا تھا۔
افغانستان کیلیے امن مذاکرات اس وقت اولین ترجیح ہیں جہاں شدت پسندوں سے نبردآزما افغان افواج کیلیے عالمی اتحاد کی امداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں۔
لیکن جون میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کھلنے والے طالبان دفتر پر کرزئی نے شدید احتجاج کیا تھا کیونکہ طالبان کی جانب سے سفید جھنڈوں اور بینرز پر وہی نشان موجود تھا جو انہوں نے 1996-2001 تک اپنے پانچ سالہ دور کے دوران جھنڈوں پر استعمال کیا تھا۔
اس تنازع کے نتیجے میں طالبان نے دفتر بند کر دیا تھا، کرزئی کی جانب سے مذاکرات کے بائیکاٹ اور طالبان سے مستقبل میں کسی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کی کی دھمکی کے باعث امن مذاکرات کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا تھا اور انہوں نے امریکا سے علیحدہ سے سیکیورٹی مذاکرات بند کر دیے تھے۔
کرزئی کا اصرار تھا کہ کسی بھی قسم کے امن مذاکرات میں مرکزی کردار ان کی حکومت کا ہو گا جہاں اس سے قبل طالبان ان سے یا ان کے مقرر کردہ مذاکرات کاروں سے بات چیت سے انکار کر چکے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ وہ امریکا کی کٹھ پتلی ہیں۔
کرزئی کے متوقع جانشین داؤد زئی نے تولو ٹیلی ویژن نیوز سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان ایمانداری سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں کردار ادا کرتا ہے تو یہ عمل افغانستان کی زیر قیادت ہی ہو گا۔
پاکستانی ریاست میں موجود عناصر پر طالبان کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ انہیں قابو کرنے اور ان کی بڑے پیمانے پر فنڈنگ کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک سینئر آفیشل نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں بدامنی روکنے کی تمام تر کوششوں کی حمایت کرے گا۔
آفیشل نے اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستان، افغان امن اور مذاکراتی عمل کے ساتھ ساتھ دوحہ میں بات چیت کی بھی مکمل حمایت کرتا ہے۔
آفیشل نے کہا کہ کرزئی کےدورہ پاکستان میں خطے کی صورتحال اور 2014 کے بعد افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا، پاکستان، افغانستان میں دیرپا امن میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن انہوں نے مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے انکار کر دیا۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار میں آنے والے کرزئی تواتر سے پاکستان کا دورہ کرتے رہے ہیں اور نواز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد یہ ان کا پاکستان کا پہلا دورہ ہو گا۔
ماہرین نے پیر سے شروع ہونے والے اس دورے میں زیادہ توقعات کو بے سود قرار دیا ہے۔
کابل یونیورسٹی کے افغانستان سینٹر کے ڈائریکٹر اور تجزیہ کار عبدالوحید وفا نے کہا کہ کرزئی نئی پاکستانی انتظامیہ کی مدد سے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کیلیے پر امید ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ پاکستان، افغانستان کے حوالے سے اپنی طویل مدتی پالیسی میں کسی قسم تبدیلی کرتے ہوئے شدت پسندی کی حمایت چھوڑ دے گا۔
پاکستانی تجزیہ نگار حسن عسکری نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عدم اعتماد کی فضا قائم ہے اور کرزئی اپنے دورے میں وقتی طور پر تعلقات کو بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
عسکری نے کہا کہ کرزئی کے اس رویے کی وجہ ان کا یہ یقین ہے کہ پاکستانی شدت پسند گروپ افغانستان میں بدامنی میں ملوث ہیں جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں چھپے شدت پسند پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کرزئی مذاکرات تو چاہتے ہیں لیکن اسے اپنے لحاظ سے کنٹرول کرنا بھی چاہتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں افغانستان کے چیف آف اسٹاف کریم خرم نے دعویٰ کیا تھا کہ دوحہ میں طالبان دفتر افغانستان توڑنے کی سازش کا حصہ ہے جو پاکستان یا امریکا میں سے کسی ایک نے بنائی۔
افغان آرمی چیف جنرل شیر محمد کریمی نے بھی گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اگر پاکستان امن کیلیے سنجیدہ ہے تو وہ افغان جنگ چند ہفتوں میں ختم کر سکتا ہے۔
منگل کو دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کیلیے عالمی سطح کا پہلا فٹبال میچ کھیلا گیا تھا جس میں افغانستان نے پاکستان کو 3-0 سے شکست دی تھی۔