گزشتہ ماہ سے شروع ہونے والی غیر معمولی مون سون بارشوں نے ملک کے بیشتر علاقوں میں بدترین سیلابی صورتحال پیدا کی ہوئی ہے۔ ملک کے کئی علاقوں میں پانی ہی پانی ہے۔ ایک طرف تو پانی آسمان سے برس رہا ہے تو دوسری طرف سیلاب بستیوں کی بستیاں اجاڑ رہا ہے۔

بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقوں میں سیلاب نے پہلے ہی غربت کی چکی میں پسے لوگوں کو مزید محتاج اور بے بس کردیا ہے۔ مکانات منہدم ہوچکے ہیں، کھیتوں اور فصلوں میں پانی ہی پانی ہے، جبکہ اس پانی کی وجہ سے زمینی راستے بھی تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ طاقتور ریلے پُل، مکانات اور لوگوں کو بہا لے جارہے ہیں۔ پانی نے جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں بھی بربادی پھیلائی ہوئی ہے

ہر طرف آہ و بکا ہے۔ سوشل میڈیا پر دلخراش مناظر ہیں۔ زندگی سسک رہی ہے۔ لاشوں کے انبار ہیں۔ بپھرا پانی ٹنوں وزنی گاڑیاں تنکوں کی مانند بہا لے جا رہا ہے۔ سیلاب کی تباہی اور امداد میں کمی سے متعلق ہر طرف یہی کہانیاں ہیں۔

ایسے میں ریاست کے ستون کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ نہ کہیں مقننہ ہے، انتظامیہ، نہ عدلیہ اور نہ ہی میڈیا۔

شہرِ اقتدار میں عدالتیں، حکومتی مشینری اور میڈیا یا تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گِل کی گرفتاری سے متعلق خبروں میں مصروف ہے یا پھر ان کی نظر سابق وزیرِاعظم عمران خان کے جوشیلے خطابات پر ہے۔

مون سون میں سیلاب اور غیر معمولی بارشیں پاکستان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ 2010ء میں بھی سیلاب نے ملک میں تباہی مچائی تھی۔ صدی کے بدترین قرار دیے گئے سیلاب سے 2 کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ سیلاب سے 1781 افراد جاں بحق جبکہ قریباً 3 ہزار لوگ زخمی ہوئے تھے۔ ملک کے 82 اضلاع میں قریباً 2 کروڑ املاک متاثر یا مکمل تباہ ہوگئی تھیں۔

لیکن اس مشکل وقت میں حکومت، فوج اور عوام نے ملکر منظم کارروائیاں کیں اور جلد ہی اس بحران پر قابو پالیا۔ پھر دوست ممالک اور این جی اوز نے بھی رقوم اکٹھی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

وزیرِاعظم آفس نے ریلیف فنڈ کی مد میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد روپے اکٹھے کیے۔ فلاحی تنظیموں کے ساتھ ساتھ تاجر برادری اور ملک کے مخیر حضرات نے متاثرین کے لیے کھانے، کپڑوں اور پناہ کا انتظام کیا۔ اس نقصان پر قابو پانے کے لیے اقوامِ متحدہ نے دنیا سے 2 ارب ڈالر کی اپیل کی تھی۔ اور تو اور گلوکاروں اور کھلاڑیوں نے بھی سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بہت کام کیا۔

یہ وہ وقت تھا جب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے نجی ٹی وی پر 5 گھنٹے طویل ٹرانسمیشن کی اور 6 کروڑ سے زائد روپے اکٹھے کیے۔ میڈیا نے سیلاب پر طویل نشریات چلائیں اور تو اور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے تو سیلاب کی کوریج کے لیے ایک سیل بھی بنا دیا تھا۔

حالیہ سیلاب سے صرف سندھ میں ساڑھے 13 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور 750 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد املاک سیلاب سے تباہ ہوچکی ہیں۔

حالیہ سیلاب کو ماہرین 2010ء والے سیلاب سے زیادہ تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔

حالیہ سیلاب کو 2010ء والے سیلاب سے زیادہ تباہ کن قرار دیا جارہا ہے— تصویر: اے پی
حالیہ سیلاب کو 2010ء والے سیلاب سے زیادہ تباہ کن قرار دیا جارہا ہے— تصویر: اے پی

حالات تیزی کے ساتھ خراب ہوتے جارہے ہیں مگر ابھی امدادی کام شروع بھی نہیں ہوپائے ہیں اور بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ آئندہ دنوں میں مزید بارشوں کی پیش گوئی ہے اگر ایسا ہوتا ہے کہ امدادی کاموں میں یقیناً مزید پریشانی کا سامنا ہوگا۔

یہاں ایک بات اور سمجھ نہیں آئی کہ اتنی بڑی آفت کے باوجود حکومت نے اب تک بین الاقوامی برادری سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارے سے منسلک افسر کے مطابق ‘سیلاب کے حوالے سے وفاقی حکومت نے کوئی رابطہ نہیں کیا، بلکہ جب ہم نے تباہی کو بڑھتا محسوس کیا خود سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں شروع کردیں’۔

سرکاری افسران کا خیال ہے کہ ملک میں جاری عدم استحکام کی وجہ سے کسی ادارے میں کوئی رابطہ اور ہم آہنگی نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اداروں، سول سوسائٹی، فوج اور میڈیا کو متحرک ہی نہیں کیا۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان جنہوں نے 2010ء کے سیلاب میں بہت کام کیا تھا، مگر آج خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ان کی حکومت ہونے کے باوجود وہ خاموش ہیں۔ آج ان کی فوقیت مرتے سسکتے انسان نہیں بلکہ سیاسی ماحول کو گرم رکھنا ہے۔

سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی ابھی تک اپنے لائحہ عمل سے متعلق سوچ رہی ہے کہ وہ کس طرح ان سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کام شروع کرے۔ منگل کو وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے سندھ کا دورہ کیا اور پریس کانفرنس کی۔ لیکن اس دوران جب متاثرین نے ان سے وفاق اور صوبائی حکومت کے اقدامات سے متعلق سوال کیے تو وہ وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ کو ہی دیکھتے رہے۔

ریاست کا اہم ستون میڈیا بھی سیلاب پر خاموش تماشائی ہے اور پوری شدت سے سیاسی کھیل میں شریک ہے۔

مقامی چینل کے ایڈیٹر محسن رضا خان مانتے ہیں کہ سیلاب جیسی ناگہانی آفت کو جس بڑے پیمانے پر کوریج دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ‘ملک کے طول و عرض سے ہمارے 600 رپورٹرز جو خبریں دے رہے ہیں ان کے مطابق حالیہ سیلاب 2005ء کے زلزلے جیسا مہلک دکھائی دے رہا ہے۔ ہم بڑے ٹی وی چینلز کی لائن چھوڑ کر سیلاب کو سیاست پر فوقیت دے رہے ہیں کیونکہ ہماری نظر میں یہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے’۔

سینئر صحافی کے خیال میں تمام جماعتیں مل کر ایک سیاسی کھیل رچا رہی ہیں تاکہ عوام کی توجہ مسائل سے ہٹائی جا سکے۔

محسن رضا خان نے بتایا کہ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کا مزہ لے رہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں شہباز گِل اور اس طرح کے دوسرے معاملات کو عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے گھڑ رہے ہیں۔

لاہور میں ایک بڑے ٹی وی چینل سے منسلک سینئر صحافی محمد اکرم کا بھی یہی ماننا ہے کہ پاکستانی میڈیا نے سیلاب کو وہ کوریج نہیں دی جو دینی چاہیے تھی کیونکہ سیلاب جیسی آفت کی کوریج کے لیے جو مہارت چاہیے وہ میڈیا سے ختم کردی گئی ہے۔

محمد اکرم کے مطابق ‘کام کو سمجھنے والے صحافیوں کو نکال باہر کیا گیا ہے۔ رپورٹنگ اور منیجمنٹ ایسے افراد کے سپرد کردی گئی ہے جن میں پیشہ ورانہ سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ بلوچستان جیسے حساس صوبے میں جہاں سے سیلاب شروع ہوا وہاں تو میڈیا کا حال بہت ہی خراب ہے۔ پہلے بلوچستان میں بڑے اداروں کا ایک بیورو ہوتا تھا مگر پھر وہ بتدریج سب ختم کردیے گئے۔ اب وہاں بس خانہ پری کے لیے بمشکل ایک رپورٹر ہوتا ہے جو ایک طرف انتہا پسندوں سے ڈرا ہوتا ہے تو دوسری طرف ادارے اسے باندھ کر رکھتے ہیں۔ ایسے حالات میں بھلا وہ کیسے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتا اور مشکل جگہوں پر جاتا۔ اس طرح کے معاملات کی کوریج کے لیے ویڈیوز کی ضرورت ہوتی ہے اور زمینی حقائق سے واقف ہونا بہت ضروری ہے، کسی کی بھی کہی ہوئی بات پر یقین کرنا آسان نہیں ہوتا’۔

محمد اکرم کے خیال میں سیلاب کوریج نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ریاست اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو خبروں میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ایک دن میں 6، 7 وزیر عمران خان سے متعلق پریس کانفرنس کریں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اکرم نے استفسار کیا کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو سب کچھ کہہ دینے کی چھوٹ کیوں ہے؟

سیینئر صحافی اور انگریزی اخبار کے ایڈیٹر عامر ضیا کے مطابق ‘سیلاب کی مناسب کوریج نہ ہونا کوئی انہونی نہیں ہے۔ ہمارا میڈیا خاص طور پر ٹی وی تو صرف سنسنی پر چلتا ہے۔ ہمارے لیے صحت، تعلیم اور غریب آدمی کے مسائل کبھی اہم نہیں رہے۔ دُور دراز علاقوں کے مسائل کی کوریج پر پیسہ خرچ ہوتا ہے جبکہ اسٹوڈیو میں 2، 3 سیاستدان بٹھا کر لڑوا دیں تو خوب ریٹنگ ملتی ہے۔ یوں مالکان بھی خوش اور دیکھنے والے بھی خوش’۔

سیلاب کے حوالے سے حکومتی بے حسی پر مؤقف جاننے کے لیے جب رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وزیرِ اطلاعات اور کئی دوسرے اہم وزرا وزیرِاعظم شہباز شریف کے ہمراہ قطر کے دورے پر ہیں اور سیلاب پر بات کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں