وزیراعظم، آئی ایم ایف سے قرض پروگرام میں نرمی کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2022
وزیراعظم شہباز شریف امریکا کے ایک ہفتے طویل دورے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے —تصویر: پی ایم او
وزیراعظم شہباز شریف امریکا کے ایک ہفتے طویل دورے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے —تصویر: پی ایم او

وزیر اعظم شہباز شریف امریکا کے ایک ہفتے طویل دورے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے، جہاں انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اہم اجلاس میں شرکت کی اور تباہ کن سیلاب کے تناظر میں ترقی یافتہ دنیا سے پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفد میں شامل ایک عہدیدار نے بتایا کہ وزیر اعظم اور مستعفی ہونے والے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ ایک نتیجہ خیز ملاقات ہوئی اور شدید سیلاب کے باعث ہونے والی تباہی کے تناظر میں تین اہم پروگراموں میں نرمی کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

ان میں چند ہفتوں کے اندر آنے والی ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط میں اضافہ کرکے باقی قسطوں کو فرنٹ لوڈ کرنا، پیٹرولیم مصنوعات پر موجودہ ٹیکس اور بجلی کے ٹیرف میں فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کو 3 ماہ کے لیے منجمد جبکہ کاٹن، گندم اور چاول کی درآمدات کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارے کے اہداف میں نرمی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار 5 سال بعد وطن واپس پہنچ گئے، معیشت میں بہتری لانے کیلئے پرعزم

اس کا مطلب ہے کہ کپاس، گندم اور چاول کی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے درکار زرمبادلہ کی رقم کو فنڈ پروگرام کے تحت مقرر کردہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے ہدف میں شامل کر کے زیر غور نہیں لایا جائے گا اور پیٹرولیم مصنوعات پر محصولات کی وصولی میں فرق اور بجلی کے نرخوں پر زیادہ سبسڈیز کو مالی سال کے خسارے کی حد میں ایڈجسٹ نہیں کیا جائے گا۔

اسی طرح پیٹرولیم لیوی میں 5 روپے فی لیٹر ماہانہ اضافہ اور بجلی کے ٹیرف پر ماہانہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ تین ماہ کے لیے یعنی یکم جنوری 2023 تک رک جائے گی، تاہم ان اقدامات کو فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظور ہونا ضروری ہے۔

وزیراعظم کے ہمراہ نامزد وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی لندن سے وطن واپس پہنچے ہیں، یہ پیش رفت دیوالیہ ہونے کے خطرے سے پیدا ہونے والے چیلنجز، روس-یوکرین جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران، بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں اور سیلاب کی مشکلات کے درمیان ایک خوش آئند نقطہ آغاز ہوگا۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کے قرض معطلی کے مطالبے پر پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافے کے خدشات

آئی ایم ایف پروگرام کے تحت گزشتہ حکومت کی جانب سے قوانین میں کی گئی تبدیلیوں کے تحت شرح تبادلہ اب وزیر خزانہ کے دائرہ کار سے باہر ہے اور صرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

تاہم سابقہ دور کی بنیاد پر اسحٰق ڈار سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اپنی اولین ترجیح کے طور پر روپے کی قیمت کو کنٹرول میں لانے کے لیے تیزی سے آگے بڑھیں گے۔

اگرچہ نئے وزیر خزانہ کے سامنے چیلنجز بہت زیادہ ہیں، لیکن اسحٰق ڈار کے پاس کچھ ایسی طاقتیں ہیں جو انہیں اپنے پیشرو کے مقابلے میں چیزوں کو سنبھالنے کے لیے بہتر پوزیشن فراہم کرسکتی ہے۔

وزیر خزانہ کی حیثیت سے آخری دور میں اسحٰق ڈار کو ڈی فیکٹو 'نائب وزیر اعظم' سمجھا جاتا تھا جنہوں نے بعض اوقات معاشی سے لے کر سیاسی اور قانونی معاملات تک 4 درجن سے زیادہ اہم کمیٹیوں کی قیادت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مفتاح اسمٰعیل مستعفی، اسحٰق ڈار کو وزیر خزانہ نامزد کر دیا گیا

چنانچہ ان کی بات کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی سربراہ نواز شریف کی جانب سے بول رہے ہیں، اپنے سابقہ دور حکومت میں وہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی درخواستوں کو بھی مسترد کر سکتے تھے۔

یہ اس کے بالکل برعکس ہے جس طرح مفتاح اسمٰعیل نے معاملات کی سربراہی میں گزارا، جہاں انہیں تقریباً دو ماہ تک پارٹی قیادت اور اتحادی شراکت داروں سے توانائی اور پیٹرولیم سبسڈیز کو واپس لینے کے لیے التجا کرنی پڑی، جسے عمران خان نے فروری میں متعارف کرایا تھا۔

اسحٰق ڈار کو ان کی غیر معمولی مہارتوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے اور مارکیٹ کے کھلاڑیوں کے ساتھ ان کا طویل مدتی تعلق ہے، وہ فارن ایکسچینج کمپنیوں اور اعلیٰ بینکاروں کے ساتھ رابطے کر سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں