افغان نائب وزیر خارجہ کا بیان پاک افغان تعلقات کی روح کے منافی قرار

01 اکتوبر 2022
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ  افغان حکام عالمی توقعات کی تکمیل اور خدشات کو دور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں— فائل فوٹو: ڈان نیوز
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ افغان حکام عالمی توقعات کی تکمیل اور خدشات کو دور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں— فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان نے افغان نائب وزیر خارجہ کے تازہ ریمارکس کو دونوں ممالک کے درمیان 'دوستانہ تعلقات کی روح کے منافی' قرار دیا ہے اور عالمی توقعات اور خدشات کی روشنی میں افغان حکام کی ذمہ داری کو اجاگر کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے گزشتہ روز ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران شیر محمد عباس ستانکزئی کے بیان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کیا۔

یہ بیان وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران افغانستان سے سرگرم دہشت گردوں سے لاحق خطرات کی جانب توجہ دلانے کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا۔

وزیر اعظم کی اس تقریر پر افغان طالبان کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، شیر محمد عباس ستانکزئی نے 27 ستمبر کو دعویٰ کیا کہ امریکی ڈرونز کو افغانستان میں پرواز کی اجازت کے لیے پاکستان کو امریکا سے ملین ڈالرز مل رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-افغان بس سروس اگلے مہینے دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کابل میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سوال کیا کہ 'ہم کب تک یہ برداشت کر سکتے ہیں؟، اگر ہم اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ہمیں کوئی نہیں روک سکے گا'۔

اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ 'یہ انتہائی قابل افسوس اور ناقابل قبول ہے، ہم نے تشویش کے ساتھ ان حالیہ ریمارکس کو نوٹ کیا ہے، ہم ایسے بیانات کو دونوں برادر ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی روح کے منافی سمجھتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کا کردار اور دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ہماری کوششیں نمایاں ہیں اور ان کا وسیع پیمانے پر اعتراف کیا جاتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ مثبت تعاون کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ افغان حکام عالمی توقعات کی تکمیل اور خدشات کو دور کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں'۔

مزید پڑھیں: پاک۔افغان سرحد پر باڑ کے تنازع کو ’سفارتی ذرائع‘ سے حل کریں گے، طالبان

انہوں نے واضح کیا کہ 'پاکستان دونوں ممالک اور خطے کے امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے افغانستان کے ساتھ مثبت روابط کو جاری رکھے گا۔

افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزام کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارے افغان دوست افغانستان کے لیے پاکستان کی حمایت اور وکالت سے بخوبی واقف ہیں، اس کا مقصد محض یہ ہے کہ افغان عوام کو درپیش سنگین چیلنجوں اور معاشی صورتحال کے پیش نظر عالمی برادری افغانستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری انداز میں مصروف عمل ہو سکے۔

مزید پڑھیں: دفتر خارجہ نے سائفر کو وزیراعظم، وزیر خارجہ سے پوشیدہ رکھنے کا دعویٰ مسترد کردیا

دریں اثنا حکومت نے اسپیشل سیکریٹری وزارت خارجہ جوہر سلیم کو سیکریٹری خارجہ کی ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ 'پاکستان کی فارن سروس کے 22 ویں گریڈ کے افسر جوہر سلیم اس وقت سپیشل سیکرٹری یورپ کے عہدے پر تعینات ہیں، انہیں ان کی اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ سیکرٹری خارجہ امور ڈویژن کے عہدے کا چارج بھی سونپا گیا ہے'۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 9 اپریل 2021 کو تمام وزارتوں اور ڈویژنوں میں بھیجے گئے ایک دفتری میمورنڈم کے ذریعےکہا تھا کہ 'سول سرونٹ ایکٹ (1973) اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد میں دیکھ بھال کی ذمہ داریوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے'۔

اس میں واضح کیا گیا تھا کہ ایک افسر کو صرف داخلی انتظامات کے ذریعے وزارت/ڈویژن کے روزمرہ کے امور سے متعلق کسی دوسرے عہدے کے لیے تعینات کیا جا سکتا ہے، یہ عارضی انتظام ہے اور جس شخص کو مذکورہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسے اس عہدے کے مکمل فیصلہ سازی اور قانونی اختیارات نہیں دیے گئے۔

پہلے یہ افواہ تھی کہ جوہر سلیم کو عبوری ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جو تکنیکی طور پر 'دیکھ بھال' کے چارج سے مختلف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مراسلہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت ہے، سفارتی جواب دیں گے، قومی سلامتی کمیٹی

سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود جمعرات کو ریٹائر ہو گئے لیکن حکومت نے تاحال کسی نئے سیکریٹری خارجہ کو نامزد نہیں کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت کا یہ ذمہ داریاں اسد مجید خان کو سونپنے کا ارادہ تھا جوکہ اس وقت بیلجیئم، یورپی یونین اور لکسمبرگ میں سفیر تعینات ہیں، مبینہ طور پر انہیں سہیل محمود کی جگہ اسلام آباد واپس بلایا گیا تھا۔

تاہم حالیہ آڈیو لیکس نے حکومت کے اس ارادے کو متاثر کیا ہے کیونکہ ممکنہ طور پر حکومت اب اسد مجید خان کی جانب سے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونالڈ لو کے ساتھ اپنی الوداعی ملاقات کے حوالے سے بھیجی گئی سفارتی کیبل کی تحقیقات کا آغاز کر سکتی ہے۔

آڈیو لیکس کے بعد حکومت سیاسی مقاصد کے لیے سفارتی کیبل میں مبینہ ہیرا پھیری کرنے میں اسد مجید خان کے کردار کی تحقیقات کا ارادہ رکھتی ہے، اگر انکوائری شروع ہوتی ہے تو اسد مجید خان سے بھی تفتیش متوقع ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں