ایک تاریخی سیریز اپنے اختتام کو پہنچی، اگرچہ نتائج ہمارے حق میں نہیں آئے لیکن کھیل کے میدان میں تو ہار جیت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، پھر اس سیریز نے ہمیں بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع دیا ہے، مگر لکھ لیجیے کہ ہم ایسی کسی وارننگ پر کان نہیں دھریں گے۔

7 میچوں کی سیریز میں 5 میچوں تک دونوں ٹیموں نے ٹکر کا مقابلہ کیا، مگر پھر اعصابی طور پر مضبوط انگلینڈ نے آخری 2 مقابلوں میں اپنی اہلیت اور صلاحیت کُھل کر ظاہر کردی۔

5 میچوں کے بعد سیریز میں پاکستان کو 2-3 کی برتری حاصل تھی، اور اگلے 2 میں سے صرف ایک میچ میں کامیابی حاصل کرکے سیریز اپنے نام کی جاسکتی تھی، لیکن ان آخری 2 میچوں میں جو کچھ ہوا وہ ہم نے دیکھا اور برداشت کیا۔

مگر یہاں آپ نے نہ غصہ ہونا ہے اور نہ طیش میں آکر ٹیم پر تنقید کرنی ہے کیونکہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) رمیز راجہ نے قوم سے اپیل کی ہے کہ اس ٹیم کو سپورٹ کیا جائے۔ ویسے ان کا یہ بیان سن کر مجھے خیال آیا کہ اگر وہ چیئرمین پی سی بی نہیں ہوتے تو کیا وہ اپنے یوٹیوب چینل پر اس کارکردگی کی حمایت کرتے؟ میں جواب دوں، اس سے بہتر ہے کہ ان کی ایک ویڈیو آپ خود دیکھ لیں کہ ٹیم کی کوتاہیوں پر وہ خود کس قدر سیخ پا ہوا کرتے تھے۔

سیریز میں شکست کے بعد انتظار تو کوچ ثقلین مشتاق صاحب کا تھا کہ وہ پریس کانفرنس کے لیے آئیں اور قدرت کے نظام سے ہمیں مزید واقفیت پہنچائیں، مگر نہ وہ چھٹے میچ کے بعد منظرِ عام پر آئے نہ کل، بہرحال کپتان بابر اعظم نے ہمت کی اور پریس کانفرنس کے لیے آئے۔

اس پوری پریس کانفرنس میں سوال کچھ بھی رہے ہوں، مگر جواب تقریباً ایک جیسے تھے، جس کا لب لباب یہی تھا کہ ’ہاں مڈل آرڈر کی کارکردگی سے ہمیں تشویش ہے، مگر پریشانی کی کوئی بات نہیں، ایسا ہوجاتا ہے‘۔

اس سیریز میں شائقین کرکٹ کا جوش و خروش دیدنی تھا اور لگاتار 7 میچوں میں جب ہاؤس فل ہو تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں لوگ کرکٹ سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ اب جہاں محبت ہوتی ہے وہاں دل لگی بھی ہوتی ہے اور دل جب ٹوٹتا ہے تو غصہ بھی نکلتا ہے اور یہی کچھ کل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہوا جب خوشدل شاہ ایک مرتبہ پھر ناکام ہوئے۔

جب وہ آؤٹ ہوکر جارہے تھے تو اسٹیڈیم میں موجود تمام افراد نے یک زبان ہوکر ’ پرچی، پرچی‘ کے نعرے لگانے شروع کردیے، مگر خوشدل کی فوری مدد کو آئے امام الحق، جنہوں نے ٹوئٹر پر لوگوں سے درخواست کی کہ ہم کھلاڑی آپ کے لیے اور ملک کے لیے کھیلتے ہیں، آپ اس طرح کے نعرے لگانے سے گریز کیا کیجیے کیونکہ اس سے کھلاڑی کو بہت تکلیف ہوتی ہے‘۔

ان کا یوں اچانک منظرِ عام پر آنا بھی حیرانی کا سبب بنا، شاید وہ خود اس تکلیف کو سمجھتے ہوں، بہرحال، یہ بات ہر کھلاڑی کو سمجھنی چاہیے کہ جب وہ اچھا کھیل پیش کرتے ہیں تو یہی شائقینِ کرکٹ انہیں اپنی آنکھ کا تارا بناتے ہیں۔

میچ پر زیادہ بات کرنے کا جی نہیں چاہ رہا، کیونکہ یہ ایسا نتیجہ ہے، جسے جتنی جلدی بھلا دیا جائے بہتر ہے۔ ہاں، جو چیز یاد رکھنے کی ہے وہ آصف علی کا نام ہے، کیونکہ remember the name کا نعرہ تو وہ خود لگاتے پھرتے ہیں۔

وہ جب بھی میدان میں ناکام ہوتے ہیں تو کچھ شرارتی افراد یہ باتیں شروع کردیتے ہیں کہ اگر آصف علی پریکٹس میں 150 چھکے لگاتے ہیں تو میدان میں کیا ہوجاتا ہے؟ ہم ایسے تمام افراد کو کہتے ہیں کہ درحقیقت وہ اپنے کوٹے کے تمام چھکے پریکٹس میں ہی ضائع کردیتے ہیں، یہ کوچنگ اسٹاف کی ذمہ داری ہیں کہ وہ آصف علی کو کہیں کہ آپ نے پریکٹس میں صرف 140 چھکے مارنے ہیں، بقیہ 10 میچوں کے لیے بچا کر رکھیے۔

ویسے کل انگلش کومنٹیٹر ڈیوڈ گوور کچھ زیادہ ہی مزے لے رہے تھے۔ جیسے ہی آصف علی بیٹنگ کے لیے آئے تو وہ کہنے لگے کہ اس پوری سیریز میں اب تک آصف نے 2 ہی چھکے لگائے، اور جب وہ آوٹ ہوئے تب بھی وہ یہی کہتے رہے۔

خیر، اس سیریز میں ہمیں افتحار احمد نے بہت ہی اچھی خبر سنادی ہے۔ ہم سب پریشان تھے کہ اگر کھلاڑی دبئی اور پاکستان کی وکٹوں میں ناکام ہورہے ہیں تو آسٹریلیا میں ان کا کیا ہوگا؟ مگر افتخار نے دبنگ اعلان کرتے ہوئے سب کو تسلی دی کہ آسٹریلیا میں تو چھکے لگانا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

سوچیے، ہماری کتنی بڑی پریشانی افتحار بھائی نے دُور کردی۔

ویسے اس پورے سیریز میں شان مسعود نے دماغ کا بہترین استعمال کیا۔ جب جب ان کی ضرورت تھی، بدقسمتی سے وہ نہ چل سکے، لیکن جب جب میچ میں پاکستان کی جیت کے امکان ختم ہوگئے یا کردیے گئے تو انہوں نے انتہائی اطمینان کے ساتھ اپنی نصف سنچری مکمل کی۔

تیسرے میچ میں انگلینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 221 رنز بنائے اور پاکستان کو 63 رنز کی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ساتویں میچ میں انگلینڈ نے 209 رنز بنائے تو پاکستان کو 67 رنز سے شکست ہوئی۔ ان دونوں میچوں میں شان نے بالترتیب 65 اور 56 رنز بنائے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر قومی ٹیم میچ نہ جیت رہی ہو تو کیا کھلاڑی اپنے رنز بھی نہ بنائے؟ یہ تو کوئی معقول بات نہ ہوئی۔

بہرحال اب صورتحال یہ ہے کہ سہ روزہ سیریز کھیلنے کے لیے قومی ٹیم نیوزی لینڈ روانہ ہوچکی ہے۔ ٹیم پر faith اس قدر ہے کہ بغیر کسی تبدیلی کے ٹیم روانہ ہوئی۔ اس سہ روزہ سیریز میں پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش اور میزبان نیوزی لینڈ کی ٹیمیں شامل ہوں گی۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اس سیریز کا فائنل پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہوگا، اور جب قومی ٹیم فائنل میں پہنچ جائے گی تو کرکٹ بورڈ کی طرف سے بیان جاری ہوگا کہ اس ٹیم نے ایک مرتبہ پھر زبردست کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائنل میں جگہ بنائی ہے۔

اب چونکہ ہردل عزیز چیئرمین صاحب نے ٹیم کو سپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے تو ہمیں ’جی سر، جی سر‘ کہنا چاہیے۔ ہاں جب وہ چیئرمین نہیں رہے اور اپنے یوٹیوب چینل پر واپس آگئے تو ہم ضرور اپنے دل کی بات آپ سے کریں گے، تب تک بہت ساری دعاؤں کے ساتھ اجازت چاہتے ہیں۔

باقی شعیب اختر جیسے لوگوں سے دُور رہیے جو چیئرمین صاحب کی بات پر عمل نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ قومی ٹیم ورلڈ کپ کے پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہوجائے گی، ہم ایسے کسی بھی بیان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Masood Ahmed Oct 03, 2022 04:15pm
بہت اچھا لکھاہے۔مزاح اور طنز کا زبردست امتزاج ہے۔
Shahid Mahmood Oct 04, 2022 09:58pm
بہت خوب۔ فہیم پٹیل نے انہیں ادھیڑ کے رکھ دیا۔ لیکن انہیں شرم نہی آنی۔