لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

سیلاب، ایک متوقع ریٹائرمنٹ اور نئے وزیرِ خزانہ کی آمد۔ معاملات ہیں کہ حل ہوتے نظر نہیں آرہے۔

ہم میں سے بہت سے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اب آگے کیا ہوگا۔ جزوی طور پر اس کی وجہ سیاسی انتشار اور ایک دوسرے سے مختلف مقاصد رکھنے والی متحارب سیاسی جماعتیں ہیں۔

ایک جانب سے فوری انتخابات کا مطالبہ ہے جبکہ دوسری طرف والے چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے۔ ان دونوں کے بیچ ایسا ہی فرق ہے جیسا ہیری کے کردار نے مشہور فلم ’وین ہیری میٹ سیلی‘ میں کہا تھا، یعنی ایک پوری رات اور 30 سیکنڈ کے درمیان کا فرق۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) ہر ممکن کوشش کرے گی کہ جتنا ہوسکے عام انتخابات کو ملتوی کریں تاکہ وہ اپنے سیاسی نقصان کا ازالہ کرسکے۔ ان کے نزدیک انتخابات مہنگائی اور عمران خان کی جانب سے اپنائے گئے سازش اور خودداری کے بیانیے کی بنیاد پر ہوں گے اور انہیں ان دونوں معاملات سے نمٹنے کے لیے وقت درکار ہے۔

مزید پڑھیے: ’بات معیشت سے شروع ہوگی اور انتخابات تک جائے گی‘

اب انہوں نے اپنے بہترین ماہرِ معیشت کو بھی بلالیا ہے تاکہ وہ نمبر، ڈالر اور روپے کو ٹھیک کرسکے اور وہ اپنی توجہ انتخابات پر مرکوز کرسکیں۔ وہ یہاں ریاست نہیں سیاست بچانے آئے ہیں جس کے بارے میں ہم دعوے سن رہے تھے۔

جہاں تک باقیوں کا تعلق ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ سائفر ہو یا آڈیو لیک، یا اس بارے میں واقعی سازش ہوئی بھی تھی یا نہیں، اس سے متعلق مکمل تحقیق کروائی جائے گی۔ بہرحال اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے مگر ظاہر ہے کہ عام آدمی کی عقل ان لوگوں کی ذہانت کا اندازہ نہیں لگا سکتی جو ہم پر حکومت کرتے ہیں۔

لیکن فکر کس بات کی؟ اگر پاکستان کی تاریخ میں ہونے والی گزشتہ تحقیقات کا جائزہ لیا جائے، پھر چاہے وہ کرپشن کے مقدمات کی تحقیقات ہوں یا اسامہ بن لادن کی یہاں موجودگی کی، تحقیقات کے منطقی انجام تک پہنچنے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے پرنس اینڈریو کی عوامی زندگی میں واپس آنے کے ہیں۔

مگر اسی دوران حکومت کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان کے اوپر غدار ہونے کا لیبل لگا دیا جائے۔ یہ بس امیدِ بہار رکھنے جیسا ہی ہے۔

یہ ایک بڑی حکمتِ عملی کا حصہ ہے تاکہ اس معاملے کو مزید طول دیا جاسکے۔ منصوبہ یہی ہے کہ گڑے مردے اکھاڑ کر ان کی تحقیقات کروائی جائیں، ڈالر کی قدر 170 روپے تک گرا دی جائے، قیمتوں میں کمی کی جائے اور امید رکھی جائے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامی جلسے اور اپنی ’ریڈ لائن‘ کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے احتجاج کے بعد تھک ہار کے آخرکار خاموش ہوجائیں گے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے ووٹر سستی اشیا خور و نوش خریدیں گے تو وہ (ن) لیگ کے گن گائیں گے جیسا کہ انہیں 2018ء میں بھی کرنا تھا۔ تو کیا ہم مستقبل کی طرف واپس جا رہے ہیں؟

بہرحال یہ کہا جاسکتا کہ پی ٹی آئی کا فوری انتخابات کروانے کا منصوبہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا (ن) لیگ دعوٰی کرتی ہے کہ وہ معیشت کو بہتر چلانا جانتی ہے۔

مزید پڑھیے: سول ملٹری تعلقات میں بہتری کے لیے یہ ٹھیک وقت کیوں ہے؟

خان صاحب اب تک 50 کے قریب جلسے کرچکے ہیں اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے مطابق ہر ایک جلسہ ’تاریخی‘ تھا، ڈرون کیمروں سے لیے گئے ان تمام جلسوں کے مناظر میرے ذہن میں گڈمڈ ہوگئے ہیں۔ اس تمام ’شو شا‘ اور خان صاحب کی جھنجھلاہٹ کے باوجود پی ٹی آئی اور ہم یہ بات جانتے ہیں کہ محض عوامی قوت کا اظہار کردینے سے ملک کی اسٹیبلشمنٹ پر شفاف انتخابات کروانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے، عوامی طاقت انہیں کچھ پریشان کردیتی ہے اور اس پریشانی کے باعث وہ انتخابات میں تاخیر کرتے ہیں کیونکہ کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس قدر متحرک ’عوام‘ اپنے حکمران کا انتخاب خود کرے۔

پی ٹی آئی بھی یہ سب جانتی ہے۔ تو شاید وہ بھی امید کر رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ الجھن کا شکار ہو جس کا انجام قبل از انتخابات ہوں۔ لیکن کیا وہ واقعی یہ سوچتے ہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ ان کی طرح پی ڈی ایم بھی اپنی قسمت آزمانہ چاہتی ہے۔

لیکن اس ساری افراتفری میں جو عنصر پی ٹی آئی سے زیادہ پی ڈی ایم کو نقصان پہنچا سکتا ہے وہ موجودہ حکومت کا عدم استحکام ہے۔ اس حکومت کے برقرار رہنے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے پنجاب میں کسی پولیس افسر کی تقرری کے امکانات ہے۔

ذرا تصور کریں کہ وفاق میں ایک مضبوط اتحاد موجود ہے۔ اس اتحاد کی بنیاد عمران خان کے لیے تھوڑی سی نفرت ہے اور کابینہ کا عہدہ ملنا اس اتحاد کا واحد پھل ہے۔ پنجاب کے ساتھ ان کا بیر ہے اور وہ ہر صورت میں اس صوبے کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ پنجاب کی حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو موجودہ حالات میں وہ حکومت اتنی مستحکم نہیں ہوگی اور شاید وہ کسی غیر شریف کو بھی حکومت کی سربراہی دے دیں۔ حکومتی نشستوں پر چاہے کوئی بھی بیٹھے وہ اپوزیشن کے رحم و کرم پر ہی ہوگا۔

بلوچستان کی حکومت بھی صرف اس وجہ سے فعال ہے کہ حکومت سب کو حکومتی بینچوں میں شامل کرنا چاہتی ہے تاکہ ان کی کارکردگی پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

یہ بات تو طے ہے کہ انتخابات سے پہلے کے ان 10 سے 12 مہینوں کے دوران معیشت بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ ہر فیصلہ آئی ایم ایف کے مطالبات اور ناراض ووٹروں کو سامنے رکھ کر کیا جائے گا لیکن قوی امکانات یہی ہیں کہ آئی ایم ایف کے حوالے سے کیے جانے فیصلوں کا انجام طویل مدت میں پاکستانی عوام کو ہی بھگتنا ہوگا۔

بنیادی اصولوں کے حوالے سے کسی بھی طویل المدتی فیصلہ سازی سے پہلے اصلاحات نہیں کی جائیں گی جیسا کہ مفتاح اسمٰعیل کی وزارت کے دور میں ہوتا تھا۔

مزید پڑھیے: ہم تعلیمی اداروں کو ناصر باغ نہ بنائیں تو وہی بہتر ہے

ہمارے پاکستانی ڈراموں میں موجود خاتون کرداروں کی طرح پاکستانی عوام کی مشکلات بھی کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ جو بھی جماعت اقتدار سنبھالے گی اس سے اس بات کی بہت کم امید ہے کہ وہ ملکی معیشت کی بگڑی ہوئی بنیاد کو ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گی، پھر چاہے وہ اقدامات فوری اٹھانے ہوں یا انتخابات کے بعد۔

مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کا مؤقف بالکل درست تھا، جب انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں سول ملٹری عدم توازن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات مسائل کا حل نہیں کیونکہ اصل مسئلہ آئین کی پاسداری ہے۔ لیکن خود وہ بھی سیاستدانوں کے لیے ایک اچھے انجام سے زیادہ کی امید نہیں رکھتے۔

بدقسمتی سے شاید ہم یہ اعتراف کرنے سے ڈرتے ہیں کہ اگر یہ عدم توازن کسی جادوئی عمل کے نتیجے میں ختم ہو بھی جائے جس طرح ڈالر کی قدر جادوئی انداز میں نیچے آرہی ہے، تو ہمارے سیاستدانوں کے پاس معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے نہ کوئی نیا حل ہوگا اور نہ ہی وہ کسی پرانے حل پر عمل کرکے گرتی ہوئی معیشت کو سنبھال سکیں گے۔

یہ سب جاننے کے بعد اب کسی کو چاہیے کہ وہ ہار مان لے اور یہ سننے لگے کہ ’یہ دنیا اگر مل بھی جائے۔۔۔‘


یہ مضمون 4 اکتوبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں