لکھاری کراچی میں مقیم محقق ہیں۔
لکھاری کراچی میں مقیم محقق ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات تیسری مرتبہ ملتوی کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔

سندھ پولیس کے سربراہ کی جانب سے حکومتِ سندھ کو یہ کہا گیا تھا کہ پولیس کی نفری متاثرین سیلاب کی بحالی اور امداد کے کاموں میں مصروف ہے جس وجہ سے انتخابات میں ڈیوٹی کے لیے درکار اہلکاروں کی دستیابی ممکن نہیں۔ سندھ حکومت نے اسی بنیاد پر انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی۔

اس کے علاوہ شہر کے موجودہ ایڈمنسٹریٹر بھی انتخابات میں ایک بار پھر التوا کا اشارہ دے چکے ہیں۔

تاہم الیکشن کمیشن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سندھ حکومت سیلاب سے نسبتاً کم متاثرہ اضلاع سے پولیس فورس کو تعینات کرے اور کراچی شہر کے 7 اضلاع میں 23 اکتوبر کو پولنگ یقینی بنائے۔

سندھ کی ایک تہائی آبادی سے زائد کا حامل کراچی شہر اسٹریٹجک اور سیاسی اعتبار سے بہت بدقسمت رہا۔ کئی برسوں سے کراچی کے معاملات مختلف صوبائی محکموں کے کنٹرول میں رہے۔ بڑے سفری منصوبوں، ادارہ جاتی اصلاحات اور ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے حوالے سے اہم فیصلے غیر شراکتی بنیاد پر کیے جاتے رہے۔ ظاہر ہے کہ بلدیاتی انتخابات کروانا اور ایک فعال بلدیاتی حکومت قائم کرنا صوبائی حکومت کی ترجیح میں نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: ’عروس البلاد‘ اپنے نئے ناظم کے لیے چشم براہ!

ماضی میں بھی کراچی کے بلدیاتی انتخابات صرف اعلیٰ عدلیہ کے سخت فیصلوں کے نتیجے میں ہی ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صرف براہِ راست فوجی حکومت کے دور میں ہی کراچی اور دیگر شہروں میں بلدیاتی حکومتوں کو بحال اور بااختیار بنایا گیا ہے۔

جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بروقت انتخابات اور بااختیار بلدیاتی حکومتوں کو یقینی بنایا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بلدیاتی حکومت کا ایک معقول نظام متعارف کروانے میں مدد ملی۔ اس سے شراکتی جمہوریت، نچلی سطح تک اہلیت سازی، کمزور طبقات کو بااختیار بنانے، حکومت میں خواتین کی شمولیت میں اضافے اور گراس روٹ سطح پر جمہوری روایات پروان چڑھانے میں مدد ملی۔

پرویز مشرف کے دور میں کراچی کو سٹی ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا۔ تاہم ’جمہوری طور پر منتخب‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اسے دوبارہ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ اگر موجودہ تقسیم کے اعتبار سے ہی انتخابات ہوتے ہیں تو کراچی میں 25 ٹاؤن ایڈمنسٹریٹر اور 233 یونین کمیٹیاں ہوں گی۔ ان انتخابات میں جو بھی اکثریت حاصل کرے گا اسے میئر کے انتخابات کے لیے بہت ہی پیچیدہ طریقہ کار کے ساتھ ساتھ کم اختیارات اور محدود ریوینیو ذرائع کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان وجوہات کی بنا پر یہ سوچنا غلط فہمی ہوگی کہ منتخب بلدیاتی ادارے شہر کو درپیش پرانے مسائل کو حل کرسکیں گے۔ 18ویں ترمیم کے باعث 2010ء سے ہی صوبائی حکومت کو غیر معمولی وسائل فراہم ہوچکے ہیں۔ ان وسائل کے علاوہ صوبائی محکموں نے تمام شہری امور کا کنٹرول بھی سنبھالا ہوا ہے۔

یوں پانی کی فراہمی، سیوریج، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ، شہری منصوبہ بندی، ٹرانسپورٹ، اراضی کا انتظام، ہاؤسنگ اور انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ، صحت، تعلیم، اربن ایگریکلچر، صنعتی ترقی، ماحولیات، بلڈنگ کنٹرول اور ان جیسے دیگر کئی ادارے اور سہولیات اب صوبائی حکومت کے پاس ہیں۔

چند امور جن میں کچھ پارکوں، نالوں اور سڑکوں کا انتظام شامل ہے وہ کے ایم سی پر چھوڑے گئے ہیں۔ اس وجہ سے ٹاؤن ایڈمنسٹریٹر اور یونین کمیٹیاں بہت ہی بنیادی نوعیت کے کام کرسکیں گی۔ پھر مالی طور پر زیرِ دست ہونے کا مطلب ہے کہ سیاسی اور مالی طور پر بھی ماتحت رہنا ہوگا۔ اگرچہ مالی وسائل کی دستیابی سے صوبے کو تو بہت فائدہ ہوا لیکن وہ فوائد شہر تک نہیں پہنچ سکے۔

صوبائی فنانس کمیشن وہ اتھارٹی ہے جو صوبے سے اضلاع اور اس سے نچلے درجوں تک فنڈز کی منتقلی کی ذمہ دار ہے لیکن اس ادارے نے شاید ہی کبھی کام کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی معمول کے امور کی انجام دہی اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی وفاقی حکومت سے ملنے والے پیکج اور گرانٹ پر ہی منحصر رہتا ہے۔ یوں اگر آپ بلدیاتی اداروں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرتے ہیں تو آپ غلطی پر ہوں گے۔

فرض کرلیتے ہیں کہ منتخب کونسلر کچھ متحرک ہوتے ہیں اور اپنے مشترکہ مطالبات کی بنیاد پر صوبائی حکومت کے ساتھ کسی طرح کا معاہدہ کرلیتے ہیں تو ایسی صورتحال میں کراچی کے شہریوں کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ جماعت اسلامی کی مستقل جاری رہنے والی مہم کیا اثر دکھاتی ہے۔ اگرچہ جماعت کی قیادت کئی برسوں سے درست مطالبات کررہی ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا جماعت کا چارٹر اسے یونین کمیٹی، ٹاؤن اور سٹی کونسل میں خاطر خواہ نشستیں دلواسکے گا؟

کونسلروں کو بھی مالی خودمختاری کے لیے ریوینیو حاصل کرنے اور ٹیکس تقسیم کرنے کے نئے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔ ان میں کئی طرح کے پراپرٹی ٹیکس، موٹر وہیکل ٹیکس، ماحولیاتی لیوی اور لاجسٹکس ٹیکس شامل ہیں۔ سیاسی گروہ صرف اس صورت میں شہریوں کی مدد کرسکیں گے جب وہ شہر کے لیے مستقل بنیادوں پر خاطر خواہ ریوینیو کا بندوبست کریں گے۔

مزید پڑھیے: آخر ہم نے کراچی کی پرانی بسوں کو کیوں بھلا دیا؟

سیاسی معاملات کے علاوہ کراچی اس ملک میں خصوصی سیاسی اور انتظامی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس بات کو مرحلہ وار تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ شہر کی منصوبہ بندی سے متعلق ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے گریٹر کراچی ریجن پلان 2047 کے حوالے سے کچھ ابتدائی کام ہوا تھا جسے جاری رہنا چاہیے۔

کراچی کی مستقبل کی منصوبہ بندی اور ترقی کے لیے ایک علیحدہ منصوبہ بندی ایجنسی کی تشکیل کرنا ایک معقول طریقہ ہے۔ اس ایجنسی کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ سیاسی مقاصد کو ترقی اور منصوبہ بندی کے قابلِ عمل ماڈل میں ڈھال دے۔ اس ایجنسی کے بنیادی افراد میں شہری منصوبہ سازوں، ماہرینِ معاشیات، سماجی ماہرین، آرکیٹیکٹس، انجینئر اور قانونی ماہرین شامل ہوسکتے ہیں۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاستی امور میں ایڈہاک ازم کو کم کرکے اور شفافیت بڑھا کر ہم اس شہر اور ملک کی بہتری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ یہ ہر سطح کی سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس موقع پر آگے بڑھ کر ذمہ داری لیں اور شہریوں کو اچھی حکمرانی فراہم کریں۔


یہ مضمون 6 اکتوبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں