آسٹریلیا میں جاری آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ کے سپر 12 مرحلے کا آج سے آغاز ہوچکا اور اس مرحلے کا پہلا میچ 2 پڑوسی ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مابین سڈنی کے مقام پر کھیلا گیا۔

اس میچ کے آغاز سے قبل نیوزی لینڈ نے آسٹریلیا کو اس کے ہوم گراؤنڈ میں آخری شکست 2011ء میں ہوبارٹ کے میدان پر کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں دی تھی۔ وہ میچ نیوزی لینڈ کے فاسٹ باؤلر ٹرینٹ بولٹ کا پہلا میچ تھا، اگرچہ وہ اس وقت تک نام پیدا نہیں کرسکے تھے، مگر اب وہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کا اہم ترین حصہ ہیں۔

تاریخ کے تناظر کا یہ پلڑا تو میزبان ٹیم کے حق میں تھا لیکن عالمی کپ کی اپنی ایک منفرد تاریخ ہے، پھر چاہے وہ ایک روزہ کرکٹ پر مبنی ہو یا ٹی20 کرکٹ پر۔ اور شاید آج وہ تاریخ دہرائی گئی ہے۔

1987ء میں برِصغیر میں کھیلے جانے والے عالمی کپ میں جس آسٹریلوی ٹیم نے شرکت کی، ناقدین اور تجزیہ کار اس ٹیم سے کوئی خاص توقع نہیں کر رہے تھے، لیکن اس ٹیم نے سب کو حیران کرتے ہوئے کلکتہ کے ایڈن گارڈنز میں عالمی چیمپیئن کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔

1987ء کے بعد 1992ء کے عالمی کپ کا انعقاد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہوا۔ اس عالمی کپ کے لیے میزبان آسٹریلیا کو فیورٹ قرار دیا جارہا تھا اور اس ایونٹ کا افتتاحی میچ انہی دونوں پڑوسیوں کے مابین آکلینڈ میں کھیلا گیا لیکن اس میچ میں خلافِ توقع نیوزی لینڈ کو فتح حاصل ہوئی۔

مزے کی بات یہ کہ اس ایونٹ میں یہ آسٹریلیا کی پہلی اور آخری ناکامی نہیں تھی بلکہ اس ورلڈ کپ میں آسٹریلیا نے 8 میچ کھیلے اور 4 میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی طرح 2021ء میں امارات میں منعقد ہونے والے ٹی20 ورلڈ کپ کے لیے بھی آسٹریلیا فیورٹ نہیں تھی، مگر اس نے فتح حاصل کرکے اس بار بھی سب کو حیران کردیا تھا۔

مگر ایک بار پھر جب اسے اپنے گھر میں اعزاز کا دفاع کرنا پڑا تو ہر طرف سے اسے فیورٹ قرار دیا جانے لگا، لیکن ایک بار پھر اس کا پہلا مقابلہ نیوزی لینڈ سے ہوا اور اسے پہلے ہی میچ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑگیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا 30 سال بعد ایک مرتبہ پھر نیوزی لینڈ سے ہونے والی شکست اتنا گہرا وار ثابت ہوگی کہ آسٹریلیا پورے ٹورنامنٹ میں سنبھل نہیں سکے گا اور اپنے حریفوں کو چیلنج کیے بغیر ٹائٹل سے محروم ہوجائے گا؟ یہ تو صرف وقت ہی بتائے گا۔


گروپ میچوں کی ماہر نیوزی لینڈ


نیوزی لینڈ کی کارکردگی پر اگر نظر ڈالیں تو یہ دلچسپ بات سامنے آئے گی کہ یہ ٹیم گروپ میچوں میں نہ صرف اچھی فارم میں نظر آتی ہے بلکہ غیر متوقع فتوحات بھی حاصل کرلیتی ہے، مگر ناک آؤٹ مرحلے یعنی سیمی فائنل یا فائنل کا مرحلہ درپیش ہو تو یہ لڑکھڑا جاتے ہیں۔

اگر ہم صرف آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مابین ہونے والے مقابلوں کا ہی ذکر کریں تو یہ دونوں ٹیمیں 2016ء اور 2022ء کے راؤنڈ میچوں میں مدِمقابل آئیں، اور دونوں مرتبہ ہی نیوزی لینڈ کو کامیابی حاصل ہوئی، لیکن جب 2021ء کے ورلڈ کپ فائنل میں ان دونوں ٹیموں کا سامنا ہوا تو وہاں آسٹریلیا حاوی آگیا۔


دونوں ٹیموں کے درمیان ’اصل فرق‘ پاور پلے ثابت ہوا


آج ہونے والے مقابلے میں پاور پلے میں پیش کی گئی کارکردگی فتح اور شکست کا باعث بنی۔ ویسے 13 نمبر کو مغربی ممالک میں بدقسمتی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے اور کوالیفائنگ راؤنڈ میں کھیلے جانے والے میچوں کی تعداد کو ملا لیا جائے تو آج یہ اس ایونٹ کا 13واں میچ تھا اور یہ نمبر آسٹریلیا کے لیے بدقسمتی کا اشارہ بن کر سامنے آیا۔

میچ کی طرف واپس آئیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نیوزی لینڈ نے اپنے ابتدائی 6 اوورز میں 65 رنز بنائے اور اس کا صرف ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا جبکہ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا نے اپنی اننگ کے ابتدائی 6 اوورز میں صرف 37 رنز بنائے اور اس کے 3 کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ پاور پلے کی کارکردگی کا یہ نمایاں فرق اس میچ میں فتح اور شکست کی اصل وجہ بن کر سامنے آیا ہے۔


نیوزی لینڈ کے اوپنرز اور باؤلرز کی شاندار کارکردگی


نیوزی لینڈ کے اوپنرز فن ایلن اور ڈیون کانوائے نے اتنا زبردست کھیل پیش کیا کہ انہوں نے اپنے کپتان کین ولیمسن کی اوسط درجے کی کارکردگی تک کو چھپا لیا۔

فن ایلن نے دھواں دھار آغاز فراہم کرتے ہوئے محض 16 گیندوں پر 3 چھکوں اور 5 چوکوں کی بدولت 42 رنز بناکر اپنی ٹیم کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اب جہاں سے ایلن نے رخصت لی تھی، اس مقام سے کانوائے نے اننگ کا چارج سنبھالا اور ناقابلِ شکست رہتے ہوئے 92 رنز اسکور کیے اور اپنی ٹیم کو ایک ایسے ہدف تک پہنچا دیا، جسے حاصل کرنا کسی بھی طور پر آسان نہیں تھا۔

جس طرح سے نیوزی لینڈ کے بیٹسمینوں نے ٹیم کو برق رفتار آغاز فراہم کیا، بالکل اسی طرح ان کے باؤلرز نے بھی کیا اور پاور پلے میں ہی مخالف ٹیم کی 3 اہم وکٹیں حاصل کرکے ایک مشکل ہدف کو مزید مشکل بنا دیا۔

آسٹریلیا کے خلاف ٹم ساؤتھی آج مکمل جوبن پر نظر آئے اور صرف 2.1 اوورز میں 6 رنز کے عوض 3 وکٹیں حا صل کرکے انہوں نے اس جیت میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔

ساؤتھی کے ساتھ مچل سینٹنر اور ٹرینٹ بولٹ نے بھی بالترتیب 3 اور 2 وکٹیں حاصل کیں اور ایونٹ کے اہم میچ میں اپنی ٹیم کو باآسانی فتح سے ہمکنار کروا دیا۔

اب جہاں باؤلرز اور بیٹسمینوں نے اپنا کردار ادا کیا وہیں نیوزی لینڈ کے فیلڈرز کی کارکردگی بھی قابلِ ستائش تھی۔ گلین فلپس نے آج کے میچ میں مارکس اسٹوئنس کا ایک ناقابلِ یقین کیچ پکڑ کر ثابت کردیا کہ کیویز ایک مکمل ٹیم ہے اور ہر شعبے میں اپنے مخالفین کو پریشان کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔


آسٹریلیا کے باؤلرز کی ناکامی نے بیٹسمینوں پر دباؤ ڈال دیا


ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز، بھارت کے خلاف کھیلے گئے وارم اپ میچ اور آج کے میچ کا جائز لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ان تمام میچوں میں آسٹریلیا کی باؤلنگ بہت بُری طرح ناکام رہی۔

آسٹریلیا کے باؤلرز نے ہر میچ میں مخالف ٹیم کو لگ بھگ 180 یا اس سے زائد رنز بنانے دیے ہیں۔ اس تناظر میں میری رائے یہ ہے کہ اگر آسٹریلیا کو اس ٹورنامنٹ میں آگے جانا ہے تو اس کو اپنی باؤلنگ میں بہتری لانی ہوگی۔

آسٹریلیا کے پاس تجربہ کار باؤلرز موجود ہیں جو کسی بھی مشکل سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے امید یہی ہے کہ وہ آنے والے میچوں میں شائقین کو مزید دلبرداشتہ کرنے کے بجائے جلد ہی اپنی کھوئی ہوئی فارم بحال کرکے ٹیم کو شکستوں کے بھنور سے نکال کر فتح کی راہ پر ڈال دیں گے۔

آسٹریلیا کو انگلینڈ کے خلاف 28 اکتوبر کو اپنی بقا کا معرکہ درپیش ہے۔ اس میچ میں خاظر خواہ کارکردگی دکھانے کے لیے آسٹریلیا کے باؤلرز پر اضافی بوجھ ہوگا اور یہ دیکھنا انتہائی اہم ہوگا کہ وہ اس بوجھ کو برداشت کرسکیں گے یا نہیں۔


ہدف کا تعاقب


عالمی کپ 2022ء میں اب تک کھیلے گئے 13 میچوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں ہدف کا تعاقب اتنا آسان نہیں ہوگا۔ آج بھی ایک نسبتاََ مشکل صورتحال میں آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر مخالف ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دی، مگر ابتدا سے اختتام تک یہ غلط فیصلہ ثابت ہوا۔

آسٹریلیا کے خلاف 11 سال کے طویل انتظار کے بعد آسٹریلیا میں فتح حاصل کرنے کے لیے نیوزی لینڈ نے ایک آئیڈیل پلیٹ فارم کا انتخاب کیا ہے لیکن ابھی اس ٹورنامنٹ میں بہت کچھ ہونا ہے اور دونوں ٹیموں کو اس ابتدائی کارکردگی کو پس پشت ڈال کر ٹورنامنٹ کے اگلے راؤنڈ میں رسائی کے لیے ابھی بہت سے معرکے سر کرنے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں