کیا آپ کو وہ پُراسرار سائیکل سوار یاد ہے، جو روز صبح تڑکے آپ کے گھر کے پاس سے گزرتا تھا؟ یکدم صحن میں کچھ گرنے کی آواز آتی، آپ اس سمت لپکتے تو ادھر کیاریوں میں، پودوں کے درمیان اس دن کا اخبار آپ کا منتظر ہوتا۔ آپ اسے اطمینان سے اٹھائے لوٹ آتے اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ملکی اور عالمی خبروں سے باخبر ہوتے۔

صرف آپ ہی نہیں، آپ کے بچے بھی اس کے گرویدہ تھے۔ اس میں ان کے لیے ننھی منی کہانیاں شائع ہوتی تھیں۔ آپ کے چھوٹے بھائی کی دلچسپی کھیلوں کے صفحے میں ہوا کرتی تھی، جبکہ آپ کے والد مذہبی صفحات توجہ سے پڑھا کرتے۔ انہی اخباری صفحات میں کہیں انٹرویوز ہوتے، کہیں کھانا پکانے کی تراکیب، کہیں معمے، کہیں فلموں کے اشتہارات اور کہیں ملازمتوں کے اعلانات۔ وہ بھی کیا دن تھے۔

یہ زیادہ پرانا قصہ نہیں، فقط 2 عشرے پہلے کی بات ہے۔ 2000ء کے آغاز تک بھی، جب جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کو ایک برس ہوچکا تھا، اخبارات خبریں، معلومات اور تفریح کا مؤثر ترین ذریعہ تھے۔ لاکھوں افراد کا دن اخبار کے مطالعے سے شروع ہوتا تھا۔ دفتر میں بھی انہیں پڑھنے کا چلن تھا۔ میگزین اور اخبارات چائے کے ڈھابوں اور نائی کی دکانوں کا لازمی جزو ہوا کرتے تھے۔

مؤرخین کہتے ہیں کہ 20ویں صدی ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ دنیا گزشتہ 19 صدیوں میں اتنی نہیں بدلی جتنی اس ایک صدی میں تبدیل ہوگئی۔ مگر 21ویں صدی کی تیز رفتاری فقط خوش بختی نہیں لائی، یہ پریشانی کا بھی باعث بنی۔ اس کی برق رفتاری نے ہماری طرزِ فکر اور یادداشت کو متاثر کیا۔ چیزیں اس قدر تیزی سے رونما ہونے لگیں کہ ان کا نقش دھیما پڑگیا۔ اشیا اور واقعات ذہن کے پردے پر عارضی عکس چھوڑ کر ماضی کا قصہ بننے لگے۔

کبھی اخبار ہر ڈھابے اور نائی کی دکان کا لازمی جز ہوا کرتے تھے
کبھی اخبار ہر ڈھابے اور نائی کی دکان کا لازمی جز ہوا کرتے تھے

ہم وہ نسل ہیں جس نے وی سی آر کا تجربہ کیا۔ تب فلموں کے لیے ویڈیو کیسٹس پر انحصار کیا جاتا تھا مگر پھر ہم نے بھاری بھرکم ویڈیو کیسٹ کو ہلکی پھلکی اور جدید سی ڈیز میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ بظاہر یہ ایک انقلاب تھا مگر جلد ہی یہ سی ڈیز بھی قصہ ماضی ہوگئیں۔ اب ایک ’یو ایس بی‘ میں درجنوں فلمیں سما جاتی ہیں اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر بھی دستیاب ہیں۔

آپ کو وہ وقت بھی یاد ہوگا جب ٹیلی فون کنکشن کا حصول ایک بڑا واقعہ ہوا کرتا تھا۔ تب محلے میں چند ہی گھروں میں ٹیلی فون ہوتا تھا مگر آج ہر گھر میں جتنے ارکان ہیں، اتنے موبائل فونز موجود ہیں۔ بیشتر افراد تو بیک وقت 2، 2 سم یا فون استعمال کر رہے ہیں۔ اسی فون میں پہلے پہل ریڈیو کی سہولت فراہم کی گئی، پھر یہ انٹرنیٹ کے طلسم سے جڑ گیا اور کچھ ہی عرصے بعد ٹیلی ویژن بھی اسی میں سمٹ آیا۔ یوں اسی نے آپ کو تازہ ترین خبریں پہنچانے کی ذمے داری بھی اٹھا لی۔ اس سے قبل کہ خبر ٹی وی چینلز کی زینت بنے، سیل فون پر آنے والا نوٹیفیکیشن آپ کو اس کی خبر کردے گا۔

وزیرِاعظم نے آج کیا بیان دیا، اپوزیشن کا کیا مؤقف ہے، سیکیورٹی اداروں نے کہاں کارروائی کی، حالیہ بجٹ میں کیا اعلانات کیے گئے، کس فلم نے کتنا بزنس کیا۔۔۔ 15، 20 سال قبل ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے آپ کو اگلے روز کے اخبار کا انتظار کرنا پڑتا تھا یا پھر آپ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے خبرنامے پر انحصار کیا کرتے تھے۔

ہاں، نجی چینلز آنے کے بعد کچھ سہولت ہوئی، مزاج بدلا، مگر اب تو معاملہ ہی بدل گیا ہے جناب۔ آپ دورانِ سفر ہوں، ویرانے میں ہوں یا مجمعے میں، پردیس میں مقیم ہوں یا اپنے گاؤں چھٹیاں منانے گئے ہوں، اب دنیا بھر کی خبروں تک رسائی کے لیے آپ کو بس ایک بٹن دبانا ہے اور خبر حاضر۔

ایک کے بعد ایک نیوز ویب سائٹس کھلتی چلی گئیں اور ان نیوز ویب سائٹس کے ذریعے آپ ان کے یوٹیوب صفحات تک بھی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ یا پھر نیوز چینلز کے فیس بک پیج یا ٹوئٹر ہینڈل کا رخ کیجیے تو تمام بریکنگ نیوز طشتری میں رکھ کر آپ کو پیش کردی جائیں گے۔

اب دنیا کی تمام خبریں بس ایک بٹن کی دُوری پر ہیں— نائعمہ زیدی، نشمیہ شاہ
اب دنیا کی تمام خبریں بس ایک بٹن کی دُوری پر ہیں— نائعمہ زیدی، نشمیہ شاہ

بظاہر یہ ایک انقلاب ہے، جس نے خبر کی دنیا کو یکسر بدل دیا ہے۔ مگر اس تبدیلی سے پرنٹ میڈیا پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کل تک جو لوگ اخبار کا انتظار کیا کرتے تھے، انہیں بلامعاوضہ، فقط انٹرنیٹ کے وسیلے درجنوں میڈیا ہاؤسز کی خبریں، کالم، فیچر اور انٹرویو میسر آنے لگے اور وہ بھی عین اس لمحے، جب انہیں ان کی خواہش ہو۔

ایسے میں وہ اخبار کیوں خریدنے لگے؟ اور خرید بھی لیں تو کیا اخبار انہیں وہ تنوع فراہم کرسکتا ہے جس کا اہتمام ایک نیوز ویب سائٹ کرتی ہے؟ پھر اخبار کو سنبھالنے کا جھنجٹ الگ۔ انہی اسباب کے سبب وقت گزرتا رہا اور گھروں میں اخبار پڑھنے والے کم ہوتے گئے۔ اخبار کے رسیا بزرگ رخصت ہوئے تو لواحقین نے چند ہی روز بعد اخبار بند کروا دیا۔ جنہوں نے تاخیر کی، ان کے ہاں یہ کربناک منظر بھی دیکھا گیا کہ صبح گھر میں پھینکا جانے والا اخبار رات گئے تک یوں ہی صحن میں پڑا اپنے قاری کا انتظار کر رہا ہے۔

اور بھی کئی اسباب ہیں، جن کے لیے الگ مضمون درکار ہے، مگر نتیجہ یہ نکلا کہ اخبارات ہوں یا میگزین، ان کی سرکولیشن میں خاطر خواہ کمی آئی۔ سرکولیشن کم ہوئی تو اشتہارات پر ضرب لگی۔ جو کمپنیاں خود اشتہارات لے کر آیا کرتی تھیں، اب ان کی تلاش میں ایجنٹ دوڑانے پڑتے ہیں۔ اشتہارات مل بھی جائیں تو ریکوری میں اچھا خاصا وقت صرف ہوتا ہے۔

بعض اوقات تو صبح کا اخبار رات تک قاری کا انتظار کررہا ہوتا ہے
بعض اوقات تو صبح کا اخبار رات تک قاری کا انتظار کررہا ہوتا ہے

اگر صورتحال میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی تو خدشہ ہے کہ چند برس بعد ہم اخبار یا پرنٹ میڈیا نامی نعمت سے محروم ہوجائیں گے۔ جو نہ صرف ہماری تاریخ بلکہ ہمارے کلچر کا بھی ایک سنہری باب ہے۔ اس مسئلے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مغرب کی سمت دیکھیں تو کچھ پریشان کن خبریں موصول ہوتی ہیں، جیسے 280 سال (لگ بھگ 3 صدیاں) تک جاری رہنے والے دنیا کے قدیم ترین اخبار Lloyd’s List کو 2013ء میں اپنا پرنٹ ایڈیشن بند کرنا پڑا تھا اور اب یہ فقط ڈیجیٹل ایڈیشن میں دستیاب ہے۔

اسی طرح 4 پلٹزر پرائز اپنے نام کرنے والے امریکی اخبار Akron Beacon Journal کے پرنٹ ایڈیشن بند ہونے کی خبر بھی میڈیا کی زینت بنی۔ البتہ ہمارے پاس برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ اور امریکی اخبار ’دی نیویارک ٹائمز‘ کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح جاپان اور بھارت میں ایسے توانا اخبارات ہیں جو ٹیکنالوجی کے طوفان اور تبدیلیوں کی ریل پیل کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان کی سمت دیکھیں تو یہاں بھی ایسی چند مثالیں ہیں جو اندھیرے میں امید کی کرن ثابت ہوسکتی ہیں۔

ان روشن مثالوں میں ایک اہم حصہ ڈائجسٹوں کا ہے۔ اگر پاکستانیوں کے مطالعے کی تاریخ مرتب کی جائے، تو اس میں اخبارات کے بعد سب سے زیادہ کردار ڈائجسٹوں کا نظر آئے گا۔

’اردو ڈائجسٹ‘ جسے پاکستان کا قدیم ترین ڈائجسٹ تصور کیا جاتا ہے، وہ آج بھی باقاعدگی سے نکل رہا ہے۔ شکیل عادل زادہ کا پرچہ ’سب رنگ‘ گوکہ بند ہوگیا، مگر اس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے اور قارئین اب بھی موجود ہیں۔ پھر معراج رسول کے شروع کردہ ڈائجسٹ مثلاً جاسوسی، سسپنس، سرگزشت، آج بھی تسلسل سے شائع ہورہے ہیں۔ پھر خواتین کے شماروں کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ ’خواتین ڈائجسٹ‘ ہی کو لیجیے، جس کی سرکولیشن آج بھی 40 سے 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

اگرچہ وقت کی رفتار اور ٹیکنالوجی کے بداثرات نے پاکستانی ڈائجسٹوں کو بھی خاصا متاثر کیا اور گزشتہ 10 برس میں ان کی سرکولیشن میں واضح کمی آئی، مگر ان کا تسلسل ایک علامت ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کے برق رفتار پھیلاؤ اور ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود آج بھی کہیں نہ کہیں کہانی کا قاری موجود ہے اور پرنٹ میڈیا کے لیے اب بھی کچھ امکانات ہیں۔ بالخصوص خواتین کے ڈائجسٹوں کا قاری اب بھی ان سے بڑی حد تک جڑا ہوا ہے۔

اردو ڈائجسٹوں نے اب بھی اپنا وجود برقرار رکھا ہوا ہے— تصویر: طاہر جمال/وائٹ اسٹار
اردو ڈائجسٹوں نے اب بھی اپنا وجود برقرار رکھا ہوا ہے— تصویر: طاہر جمال/وائٹ اسٹار

اس تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ایک جانب جہاں ان اداروں کو نت نئے طریقے اور مارکیٹنگ کے دلچسپ انداز اختیار کرنے ہوں گے، وہیں یہ میڈیا سے جڑے محققین کے لیے بھی اہم سوال ہے کہ آخر یہ ڈائجسٹ اپنے قاری کو ایسا کون سا مواد پیش کر رہے ہیں کہ وہ اب بھی انہیں ہر ماہ خرید رہا ہے۔ شاید یہ ایسے خصوصی مواد (Exclusive Content) کی فراہمی ہے، جو کسی نیوز ویب سائٹ یا یوٹیوب پر میسر نہیں۔ ممکن ہے کہ اس سوال کا جواب پرنٹ کو نئی زندگی دینے میں معاون ہو۔

ویسے تو پرنٹ میڈیا کی بقا کی جنگ میں حکومتی مشینری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، مگر فی الحال ان سے کوئی امید رکھنا لاحاصل ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Nov 09, 2022 10:48pm
خال خال اب بھی نظر آتے ہیں اس قوم میں وہ بابے جو کہتے سنے گئے ہیں، جو بات انگلی پر لعابِ دَہن لگا کو کاغذ والے اخبار کا صفحہ پلٹنے میں ہے وہ کمپیوٹر پر کہاں۔ کمپیوٹر پر بہرحال آپ ٹائپ کو زوم کم اور زوم زیادہ کر سکتے ہیں بڑی آسانی ہے۔