پاکستان بلآخر آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ 2022ء کا فائنل کھیلنے جارہا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کا سفر 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔

آپ اسے اتفاق کہیں یا قدرت کی کرنی لیکن ایسا لگتا ہے جیسے اس ٹی20 ورلڈ کپ کی تاریخ 30 سال قبل لکھ دی گئی تھی۔ جیسے جیسے میرے ذہن میں 1992ء کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ ہورہی ہیں ویسے ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ ان دونوں ٹورنامنٹس کے دوران پاکستان کے سفر میں کتنی مماثلتیں موجود ہیں۔

1992ء کے ورلڈ کپ میں بھی موجودہ ٹورنامنٹ کی طرح پاکستان کا آغاز متاثر کن نہیں تھا۔ 1992ء میں ایڈہلیڈ کے میدان پر انگلینڈ کے خلاف کھیلے گئے میچ میں پاکستانی ٹیم 76 رنز بناکر آؤٹ ہوئی تو بارش مدد کو آپہنچی اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا۔ اس کے بعد پھر قومی ٹیم کو بھارت سے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوں لگا جیسے یہ ٹیم ایونٹ سے باہر ہوگئی، مگر تب اس ٹیم نے 2022ء کی طرح لگاتار 3 میچ جیت لیے، مگر ان فتوحات کے باوجود اگر، مگر کی صورتحال برقرار رہی اور اس کا خاتمہ اس وقت ہوا جب آسٹریلیا نے ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر پاکستان کی راہ ہموار کی، بالکل ویسے ہی جیسے اس ورلڈ کپ میں نیدرلینڈ نے جنوبی افریقہ کو شکست دے کر کی تھی۔

لیکن پھر قومی ٹیم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آکلینڈ میں کھیلے جانے والے سیمی فائنل میں انضمام الحق کی جانب سے بنائے گئے 37 گیندوں پر 60 رنز نے نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

قومی ٹیم کی موجودہ صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ اس ٹی20 ورلڈ کپ میں محمد رضوان اور بابر اعظم جیسے کھلاڑیوں کی کارکردگی امیدوں کے مطابق نہیں رہی جس کی وجہ سے ٹیم اپنی مکمل صلاحیت کے ساتھ نہیں کھیل رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ زمبابوے کی ٹیم سے شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے لیے ایک بار پھر اگر، مگر کا کھیل شروع ہوگیا۔ قسمت کا کرنا یہ ہوا کہ نیدرلینڈز نے غیر متوقع طور پر جنوبی افریقہ کو شکست دی جس سے پاکستان کے لیے سیمی فائنل میں رسائی کی راہ ہموار ہوگئی۔ پھر سیمی فائنل میں پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ کو شکست دے کر بلآخر فائنل میں پہنچ گئی۔

اتفاق دیکھے کہ دوسری جانب انگلینڈ دوسرے سیمی فائنل میں بھارت کو شکست دے کر فائنل میں پہنچ گیا، یعنی 1992ء کے ورلڈ کپ فائنل کی طرح ایک بار پھر میلبرن کا میدان ہے اور فائنل میں پاکستان اور انگلینڈ مدمقابل ہیں۔

میرے حافظے میں 1992ء کے ورلڈکپ کی بہت سی یادیں موجود ہیں کیونکہ میں ٹی وی نیوزی لینڈ کے کمنٹیٹر کے طور پر سارے ایکشن کو دیکھ رہا تھا۔

1992ء کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کی فتح کے بعد میں نے جو مناظر دیکھے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ شکست کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم نے کپتان مارٹن کرو کی سربراہی میں پورے میدان کا چکر لگایا اور تماشائیوں نے انہیں بھرپور داد دی۔ اس دوران نیوزی لینڈ کی ٹیم کے ساتھ ساتھ تماشائیوں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے۔ دوسری جانب ڈریسنگ روم میں پاکستانی ٹیم فائنل میں پہنچنے پر جشن منارہی تھی۔

1992ء کے ورلڈ کپ کے دوران آئی سی سی اور آسٹریلین کرکٹ بورڈ نے شاید پہلے سے ہی یہ سمجھ لیا تھا فائنل میں آسٹریلیا اور انگلینڈ پہنچیں گے۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ پہلے سے ہی ایک پریس ریلیز جاری کردی گئی تھی کہ میلبرن کرکٹ گراؤنڈ کے مین پریس باکس میں صرف ان ممالک کے صحافیوں کو جانے کی اجازت ہوگی جن ممالک کی ٹیمیں فائنل کھیل رہی ہوں گی۔ لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ فائنل میں آسٹریلیا کی جگہ پاکستان پہنچ گیا۔

1992ء میں بھی پاکستان نے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو شکست دی تھی
1992ء میں بھی پاکستان نے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو شکست دی تھی

جب میں فائنل کے دن میلبرن کے مین پریس باکس میں آیا تو دیکھا کہ وہاں آسٹریلوی اور انگلش صحافی موجود ہیں جبکہ پاکستانی صحافی باہر عوامی اسٹینڈز پر موجود ہیں۔ مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے آسٹریلوی بورڈ اور آئی سی سی کو دھمکی دی کہ میں ان پر پاکستانی صحافیوں کے خلاف نسلی امتیاز برتنے پر قانونی چارہ جوئی کروں گا۔ یہ دھمکی کام کرگئی اور پاکستانی صحافیوں کو پریس باکس میں داخلے کی اجازت مل گئی۔

اس دن میدان میں 87 ہزار 182 تماشائی موجود تھے اور مجمع بہت پُرجوش تھا۔ چونکہ آسٹریلیا تو فائنل تک پہنچا نہیں تھا اس وجہ سے تمام آسٹریلوی تماشائی اپنے روایتی حریف انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی حمایت کررہے تھے۔ اس وقت تماشائیوں میں پاکستانی بھی موجود تھے لیکن اتنے نہیں جتنے اس ٹی20 ورلڈ کپ میں ہیں۔

وہ بہت ہنگامہ خیز میچ تھا۔ جاوید میانداد، انضمام الحق اور عمران خان نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ساتھ ہی وسیم اکرم نے ایک ہی اوور میں ایلن لیمب اور کرس لوئس کی اہم وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اس جیت پر آسٹریلوی اور پاکستانی تماشائی خوشی سے پُرجوش تھے۔ عمران خان نے جب ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھائی اور ٹیم نے میدان کا چکر لگایا تو 87 ہزار افراد نے انہیں داد دی۔ یہی نہیں بلکہ میدان میں موجود آسٹریلوی تماشائیوں نے بھی ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے بھی لگائے۔

تمام پاکستانی، آسٹریلوی اور انگلش صحافی پاکستانی ٹیم کو مبارک باد دینے پہنچے لیکن میں نے بوجوہ اس سے اجتناب کیا اور بی بی سی اور دیگر اخبارات جن کے لیے میں ٹورنامنٹ کور کررہا تھا ان کے لیے رپورٹس لکھنے میں مصروف ہوگیا۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس وقت میڈیا کے پاس رابطے کے ذرائع محدود تھے اور اس وقت رپورٹس بھیجنے کے لیے میدان میں 2 فیکس مشینیں موجود تھیں۔ ای میل کا تصور نہیں تھا جبکہ ٹیلیکس مشینیں موجود تھیں اور فیکس متعارف ہوچکا تھا۔

جب میں تھکا ہارا لیکن خوشی سے سرشار میلبرن کے اسٹیڈیم سے باہر نکلا تو رات کے 3 بج رہے تھے اور میں نے دیکھا کہ باہر پارک میں انگلش تماشائی اپنی شکست پر افسردہ بیٹھے تھے اور کچھ تو باقاعدہ رو رہے تھے۔ ان میں سے کچھ نے مجھے دیکھ کر نسلی امتیاز پر مبنی جملے بھی کسے، لیکن ان کی شکست کو دیکھتے ہوئے یہ بات ناقابلِ فہم تو نہیں۔ یہ وہ پہلا ورلڈ کپ تھا جو رنگین کٹ اور فلڈ لائٹس میں کھیلا گیا اور جس میں سفید گیند استعمال ہوئی۔

1992ء ورلڈ کپ میں پاکستان کی فتح کی خبر کا عکس
1992ء ورلڈ کپ میں پاکستان کی فتح کی خبر کا عکس

کل ایک بار پھر پاکستان اور انگلینڈ میلبرن کے ہی میدان میں فائنل میں ایک دوسرے کے مدِمقابل ہوں گے۔ اس مرتبہ کھلاڑی بھی مختلف ہیں، فارمیٹ اور کپتان بھی، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر یہ میچ آخری گیند تک جاتا ہے تو یہ بھی 1992ء کے ورلڈ کپ کی طرح تاریخ رقم کرے گا۔ اس بات کا امکان تو ہے کہ فائنل کو بارش متاثر کرسکتی ہے مگر اس کے باوجود پوری دنیا کی نظریں اس وقت میلبرن کے میدان پر ہی ہیں۔

اس میچ میں بابر اعظم کے لیے نیک تمنائیں اور ساتھ یہی امید ہے کہ جو بھی ٹیم اچھا کھیل پیش کرے جیت کا سہرا اسی کے سر سجے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ہاشم عبداللہ Nov 13, 2022 09:32am
بہت خوب لکھا۔ ان شاءاللہ بالکل ایسا ہی ہوگا اور 1992 کی تاریخ اپنے آپ کو ضرور دوہرائے گی اور یہ ورلڈ کپ پاکستان ہی حاصل کرے گا۔ لیکن اگر ہم ہار بھی گئے تو کوئی افسوس نہیں ہوگا، ٹیم نے اچھا کھیل پیش کیا اور فائنل تک رسائی حاصل کر لی یہی بڑی بات ہے،۔ ویلڈن پاکستان کرکٹ ٹیم۔ بیسٹ آف لک