کراچی: فٹ بال کے شوقین نوجوانوں نے صدیق گوٹھ کو مِنی قطر میں تبدیل کردیا

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2022
یہاں رہنے والی بلوچ اکثریت فٹ بال کو جنون کی حد تک پسند کرتے ہیں — فوٹو: وائٹ اسٹار
یہاں رہنے والی بلوچ اکثریت فٹ بال کو جنون کی حد تک پسند کرتے ہیں — فوٹو: وائٹ اسٹار

فیفا ورلڈ کپ 2022 کا میلہ قطر کے شہر الخور میں موجود البیت اسٹیڈیم میں آج سے سجنے کو پوری طرح تیار ہے، وہیں کراچی کے علاقہ ملیر میں صدیق گوٹھ میں صرف ایک گھر نہیں بلکہ پورا محلہ ہی بہت بے صبری سے فیفا ورلڈ کپ کے استقبال کا منتظر ہے۔

صدیق گوٹھ میں گُل بلوچ فٹ بال گراؤنڈ میں روایتی رقص کے ساتھ آتش بازی کا بھی مظاہرہ کیا جائے گا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جیسا کہ فیفا ورلڈ کپ ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے، طویل عرصے بعد فٹ بال ورلڈ کپ کی خوشی میں صدیق گوٹھ کے دو فنکاروں نے علاقے کی دیواروں پر سفید رنگ کرکے کھلاڑیوں کی تصاویر بنانے کے ساتھ ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ٹیموں کے پرچم بھی بنا رکھے ہیں۔

یہاں رہنے والی بلوچ اکثریت فٹ بال کو جنون کی حد تک پسند کرتی ہے اور یہاں کے رہائشی نوجوان اور بچے پورا سال ہی گراؤنڈ اور گلیوں میں فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں۔

یہاں تک کہ اس علاقے کے رہائشی برازیل، ارجنٹائن، جرمنی، اٹلی اور پرتگال ممالک کے ساتھ خاص رغبت رکھتے ہیں۔

گُل بلوچ فٹ بال کلب کے پاس گُل بلوچ فٹ بال گراؤنڈ کی ملکیت ہے، گراؤنڈ میں ورلڈ کپ میچز دیکھنے کے لیے بڑی اسکرین لگائی جاتی ہے، گُل بلوچ کلب کے مالک راشد عبدالرزاق کہتے ہیں کہ یو ای ایف اے یورپ لیگ کے دوران ہم نے کلب کی عمارت کی سب سے اوپری منزل پر اسکرین لگائی تھی، فیفا ورلڈ کپ ایک میگا ایونٹ ہے اسی لیے ہم زیادہ ہجوم کی توقع کرتے ہیں۔

اس کلب نے نوجوانوں میں فٹ بال کھیلنے کی صلاحیت کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اسی علاقے کے انڈر 18 کھلاڑی بلال بلوچ اب جرمنی کے شہر بریمن کے لیے کھیلتے ہیں، اس کے علاوہ اسی علاقے کے دو مقامی کھلاڑی پیر بخش اور وسیم محمد ایران میں کھیل رہے ہیں جبکہ نوجوان یٰسین بلوچ کراچی یونائیٹڈ کے لیے کھیل رہے ہیں۔

فوٹو: وائٹ اسٹار
فوٹو: وائٹ اسٹار

راشد عبدالرزاق نے کہا کہ صدیق گوٹھ کے نوجوانوں میں بے شمار صلاحتیں ہیں، فٹنس کے شوقین غلام مرتضیٰ کی فٹ بال میں پسندیدہ ٹیم جرمنی ہے اوراسی وجہ سے انہوں نے جرمن زبان بھی سیکھ لی ہے۔

وہ جس گھر میں رہتے ہیں اسے ’جرمن ہاؤس‘ کہتے ہیں اور گھر کے داخلی دروازے پر جرمنی کا پرچم لگا ہوا ہے، اسی علاقے کا ایک اور نوجوان اطالوی زبان بولتا ہے اور اس کی پسندیدہ ٹیم اٹلی ہے، اسی طرح نوجوان مخدوم مراد بلوچ نے فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے بلوچی زبان میں ایک ریپ گانا تیار کیا ہے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں مشہور سموسے اور پکوڑے بیچنے والا ماما برازیل بھی ہے جو اپنی چھوٹی سی جھونپڑی کو بند کرکے ریڑھی میں سامان بیچتے ہیں۔

صبح کے اوقات میں ماما برازیل فیکٹری جانے والے ملازمین کو نمکین غذا فروخت کرتے ہیں اور اسی ریڑھی سے وہ فٹ بال ورلڈ کپ میں کھیلے جانے والے ممالک کے جھنڈوں اور جرسی کو فروخت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ گزشتہ 18 دنوں سے ویڈیو گیم کی دکان چلانے والے ساجد علی آدھی رات کو اپنی دکان بند کرکے صدیق گوٹھ میں ورلڈ کپ کھیلنے والے ممالک کے جھنڈے، کھلاڑیوں کی تصاویر اور دیگر ہر قسم کی ڈیرائن صبح فجر کی نماز سے پہلے دیواروں پر نقش کرتے ہیں۔

ساجد علی نے اپنے دو ہفتے کی مصروفیات بتاتے ہوئے کہا کہ ’صبح فجر سے لے کر ظہر تک میں سوجاتا ہوں جس کے بعد میں کام پر چلا جاتا ہوں‘۔

ساجد علی خود فرانس کے بہت بڑا پرستار ہیں اور فرانسیسی فٹ بالر اینٹوئن گریزمین کی تصاویر کے ساتھ فرانسیسی جھنڈے بھی دیواروں پر مختلف رنگوں سے نقش کرنا چاہتے ہیں۔

آپ کو ساجد علی کا فن علاقے کی ہر گلی کی دیواروں میں نظر آئے گا سوائے ایک گلی کے جہاں ڈاکٹر سبینہ حسین نے اپنے فن/آرٹ کی نمائش کی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر سبینہ حسین نے کہا کہ اس گلی میں تمام فن پارے انہوں نے نہیں بنائے بلکہ ان کے شوہر نے بھی ان کی مدد کی ہے، یہ جوڑا فٹ بال کا دیوانہ ہے، سبینہ حسین کی پسندیدہ ٹیم جرمنی ہے جبکہ ان کے شوہر برازیل کے پرستار ہیں۔

صدیق گوٹھ کی گلی کو 2006 میں ڈاکٹر سبینہ حسین نے سجایا تھا جب وہ بہت چھوٹی تھیں اور اب ان کی شادی کے بعد شوہر نے اس کام میں ان کا ساتھ دیا ہے، وہ کہتی ہیں کہ اس بار ہم نے اس جگہ کی اس طرح رنگ آمیزی کی ہے کہ یہ علاقہ مِنی قطر لگے، انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اس سے قبل ہم اس جگہ کو مِنی روس، مِنی برازیل، مِنی جنوبی افریقہ اور مِنی جرمنی بھی بنا چکے ہیں۔

یقین جانیے کہ گلی سے باہر نکلنے کے بعد آپ تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے، جو لوگ کھیل میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کھیل کے دلدادہ ہیں ان کے لیے صدیق گوٹھ میں بہت کچھ ہے، یہاں کے آرٹ، پینا فلکس، پرنٹس، ماما برازیل وغیرہ سے آپ یقیناً لطف اندوز ہوں گے، یہ بھی بتاتے چلیں کہ صدیق گوٹھ کو ملیر کا خوابوں جیسا علاقہ مانا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں