کورونا کی وجہ سے ’خسرہ‘ بڑھ کر عالمی خطرہ بن چکا، عالمی ادارہ صحت

25 نومبر 2022
سال 2021 میں خسرہ سے ایک لاکھ 28 ہزار اموات ہوئیں، رپورٹ—فوٹو: اے ایف پی
سال 2021 میں خسرہ سے ایک لاکھ 28 ہزار اموات ہوئیں، رپورٹ—فوٹو: اے ایف پی

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) نے خبردار کیا ہے کہ اگر خسرہ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو دنیا کے حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔

دونوں اداروں کے مطابق کورونا کی وبا کے بعد خسرہ بڑھ کر عالمی خطرہ بن چکا ہے، کیوں کہ دو سال تک اس کی ویکسینیشن متاثر ہوئی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈبلیو ایچ او اور سی ڈی سی نے جاری کردہ مشترکہ بیان میں خسرہ کے بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بیماری سب سے زیادہ متعدی ہے، اس لیے اس کے بڑھنے سے سنگین بحران بھی پیدا ہوسکتا ہے۔

دونوں اداروں کے مطابق کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد دوسری بیماریوں کی طرح خسرہ سے بچاؤ کی ویکسینیشن بھی متاثر ہوئی اور تقریبا 4 کروڑ روپے بچے ویکسین سے محروم رہے۔

اداروں کے مطابق بچوں کی ویکسینیشن نہ ہونے سمیت صحت کے دیگر مسائل پیدا ہونے کی وجہ سے خسرہ بڑھ گیا اور گزشتہ سال اس کی شرح 19 سے بڑھ کر 35 فیصد تک جا پہنچی۔

دونوں اداروں کے ماہرین کے مطابق خسرہ کے علاج کے لیے اگرچہ کوئی خصوصی دوائی دستیاب نہیں، تاہم اس سے بچاؤ کے قطرے یا ویکسین اس مرض سے 95 فیصد تک محفوظ رکھ سکتی ہے۔

دونوں اداروں نے خبردار کیا کہ اگر دنیا بھر کے ممالک نے خسرہ پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر اقدامات نہیں اٹھائے تو اس سے سنگین خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا سے قبل بھی خسرہ عالمی صحت کے لیے مسئلہ تھا مگر اس پر قابو پایا جا چکا تھا لیکن اب دوبارہ یہ بے قابو ہوتا جا رہا ہے، تاہم اب اس پر قابو پانے اور اس پر کام کرنے کا وقت آچکا ہے۔

دونوں اداروں کے ماہرین کا کہنا تھا کہ خسرہ کو کم کرنے کے لیے ممالک کو 12 سے 24 ماہ تک مسلسل کام کرنا ہوگا۔

ماہرین امراض کے مطابق خسرہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہوا کے ذریعے تیزی سے پھیلتی ہے اور یہ مرض ایک سے دوسرے شخص میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔

عام طور پر خسرہ کم عمر بچوں کو متاثر کرتا ہے، تاہم اس سے بالغ افراد بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

گزشتہ سال دنیا بھر میں خسرہ سے ایک لاکھ 28 ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں اور حالیہ چند ہفتوں میں افریقا سمیت امریکا اور یورپ میں بھی اس کے درجنوں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں