کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دو بچیوں کے ریپ کے ملزم کو 2017 میں ریپ کا نشانہ بنانے کے دوسرے مقدمے میں بھی موت کی سزا سنا دی۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت-10 کے جج نے ملزم اور استغاثہ دونوں طرف کے دلائل مکمل ہونے اور شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔

مقدمے کی سماعت کراچی کے مرکزی جیل کے اندر قائم جوڈیشل کمپلیکس میں مکمل ہوئی تھی۔

ملزم امجد علی عرف ذکریا پر کراچی کے سکھن پولیس اسٹیشن کی حدود میں 5 سال قبل بچی کو ریپ کا نشانہ بنانے کا جرم ثابت ہوا۔

رواں مہینے، یہ دوسرا مقدمہ ہے جس میں امجد علی کو کراچی کے علاقے ملیر میں نابالغ بچیوں کو اغوا اور ان کا ریپ کرنے پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔

جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزم امجد علی عرف ذکریا بغیر کسی شک و شبہے کے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (3) کے تحت مجرم قرار پایا ہے۔

جج نے مزید حکم دیا کہ اسے عدالت کے فیصلے کے تحت موت کی سزا سنائی جاتی ہے۔

تاہم سزائے موت سندھ ہائی کورٹ کی تصدیق سے مشروط ہے، جیسا کہ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 376 (ہائی کورٹ کو سزا کی تصدیق یا ختم کرنے کا اختیار) میں بتایا گیا ہے۔

جج نے دفتر کو ہدایات دیں کہ وہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 25 (2) کے تحت کیس کی کارروائی کا ریکارڈ سزائے موت کی تصدیق کے لیے سندھ ہائی کورٹ بھیجیں، جس کی ضرورت کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 374 کے تحت ہے۔

اس دوران مجرم اپنی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل بھی دائر کرسکتا ہے۔

تفتیشی افسر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) علی حسان شیخ نے حتمی چالان میں بتایا کہ شکایت کنندہ جو متاثرہ بچی کی والدہ ہیں، وہ لیبر اسکوائر کے قریب فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں اور قریب ہی قائم ایک فیکٹری میں دونوں بچیوں کے ہمراہ کام کرنے جاتی تھیں جبکہ ان کے شوہر پنجاب میں رہتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ واقعے والے دن ملزم امجد جو جاسوسی کر رہا تھا، شکایت کنندہ کے گھر میں کرائے لینے کے بہانے داخل ہوا تھا۔

تاہم ملزم نے 2 بچیوں کو ایک کمرے میں بند کیا اور انہیں ریپ کا نشانہ بنایا اور فرار ہو گیا، اُس وقت ان کی عمریں 4 سے 5 سال کے درمیان تھیں۔

یہ مقدمہ سکھن پولیس اسٹیشن میں متعلقہ قوانین کے تحت درج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں