’دو خواتین کی ملاقات کی وجہ محض یکساں جنس یا عمر نہیں ہوتی‘

اپ ڈیٹ 01 دسمبر 2022
جیسنڈا آرڈرن نے کہا میں سوچتی ہوں کہ کیا کبھی کسی نے یہ سوال سابق امریکی صدر براک اوباما اور نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم جان کی سے بھی کیا — فوٹو: یورو نیوز
جیسنڈا آرڈرن نے کہا میں سوچتی ہوں کہ کیا کبھی کسی نے یہ سوال سابق امریکی صدر براک اوباما اور نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم جان کی سے بھی کیا — فوٹو: یورو نیوز

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اور فن لینڈ کی وزیراعظم سنا مارین کی مشترکہ پریس کانفرس کے دوران رپورٹر کے غیر موزوں سوال پر دونوں خواتین رہنماؤں کی حاضر جوابی نے سوشل میڈیا صارفین کی توجہ سمیٹ لی۔

سوشل میڈیا پر جیسنڈا آرڈرن اور سنا مارین کی پریس کانفرس کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ ’بہت سارے لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا آپ دونوں اس لیے مل رہی ہیں کہ کیونکہ آپ دونوں ہم عمر ہیں اور دونوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں؟‘

جواب میں جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ ’میں سوچتی ہوں کہ کیا کبھی کسی نے یہ سوال سابق امریکی صدر براک اوباما اور نیوزی لینڈ کے سابق وزیر اعظم جان کی سے بھی کیا کہ کیا وہ اس لیے ملتے ہیں کیونکہ وہ ہم عمر ہیں؟‘

خیال رہے کہ براک اوباما اور جان کی 1961 میں چند دنوں کے فرق سے پیدا ہوئے تھے۔

جیسنڈا آرڈرن نے مزید کہا کہ ’2 خواتین صرف اس لیے نہیں ملتیں کہ ان دونوں کی جنس مشترک ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ فن لینڈ کی نیوزی لینڈ میں آنے والی برآمدات کی مالیت 19 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہے، ان کے پاس نوکیا جیسی کمپنیوں میں ٹیکنالوجی ہے، بائیو فیول ہے، زرعی شعبوں میں کام آنے والی مشینری بھی فن لینڈ میں بنائی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’نیوزی لینڈ کی فن لینڈ کو برآمدات کی مالیت ایک کروڑ 40 لاکھ ڈالر ہے جس میں بڑا حصہ وائن اور گائے کے گوشت کی تجارت پر مشتمل ہے، ہماری جنس سے قطع نظر بطور سربراہان یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے مزید فروغ دیں‘۔

سنا مارین نے بھی جیسنڈا آرڈرن سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں اس لیے مل رہی ہیں کیونکہ وہ دونوں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔

خیال رہے کہ سنا مارین اپنے پہلے سرکاری دورے پر نیوزی لینڈ میں تھیں اور وہ نیوزی لینڈ کا دورہ کرنے والی فن لینڈ کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہیں۔

دونوں وزرائے اعظم سے سوال کیا گیا کہ وہ بطور خاتون سربراہان اقلیت میں ہونے کی وجہ سے کیا محسوس کرتی ہیں۔

جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ یہ سوال ان موضوعات میں شامل ہے جس پر ان دونوں نے تبادلہ خیال کیا تھا اور اس پر غور کیا کہ وہ مل کر کیا کر سکتی ہیں، خاص طور پر ایسے معاملات میں جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

سنا مارین نے کہا کہ خواتین کو دنیا بھر میں مردوں کے برابر حقوق ملنے کی ضرورت ہے، اس معاملے پر وہ دونوں متحد ہو کر کھڑی ہونا چاہتی ہیں۔

حاضر جوابی پر دونوں خواتین وزرائے اعظم کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھرپور انداز میں سراہا جارہا ہے جبکہ رپورٹر کے غیرموزوں سوال پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔

ایک صارف نے جیسنڈا آرڈرن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے ایک بچکانہ، ہتک آمیز سوال کا انتہائی عقلمندانہ، معلوماتی اور تعلیم یافتہ ردعمل دیا‘۔

ایک اور صارف نے کہا کہ ’شرم کی بات ہے کہ صحافی نے ان سے ایسے بات کی جیسے وہ 1950 کی دہائی کی گھریلو خواتین ہیں جو صبح کی کافی تیار کر رہی ہیں۔‘

ایک اور صارف نے کہا کہ ’ایسا سوال کرنے والے شخص کو صحافی نہیں کہا جاسکتا، ان کے ساتھیوں کو ان سے دور رہنا چاہیے، کیا ان کا ایڈیٹر اس صحافی کے اس عمل کی توثیق کرے گا؟‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی دونوں خواتین رہنماؤں کی اس پریس کانفرنس کی وائرل ویڈیو شیئر کی گئی اور ساتھ خواتین کے حقوق کا نعرہ بھی درج کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں