اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


کل رات کے میچ کے بعد تھکاوٹ کی وجہ سے صبح کافی دیر سے آنکھ کھلی اور اب تھکن کی وجہ سے دل یہی چاہ رہا ہے کہ بس گروپ مرحلہ جلد از جلد ختم ہوجائے۔

اگر آپ نے میری پچھلی تحریریں پڑھی ہوں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جب میں قطر عالمی کپ کور کرنے آرہا تھا تو مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ ایک دن میں مجھے 2 میچ کور کرنے کا موقع ملے گا۔ میں نے اس سے قبل جتنے فیفا ورلڈ کپ کور کیے، ان میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔

میں نے 2014ء میں برازیل عالمی کپ کے 14 میچ جبکہ 2018ء میں روس عالمی کپ کے 18 میچ کور کیے تھے۔ اس تناظر میں اگر یہ عالمی کپ دیکھیں تو میں اب تک 23 میچ کور کرچکا ہوں۔ لیکن ایک اسٹیڈیم سے دوسرے اسٹیڈیم بھاگنا اور پھر رپورٹ بنانا کافی محنت کا کام تھا اور کل رات مجھے اندازہ ہوگیا کہ ہاں اب صورتحال مشکل ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ گروپ مرحلہ آج رات اختتام پذیر ہوجائے گا۔

گروپ مرحلے کے بعد سب معمول پر آجائے گا۔ ایک دن میں میچ تو 2 ہی کھیلے جائیں گے لیکن میں صرف ایک کور کروں گا۔ اخبار کی ڈیڈلائن کے حساب سے پاکستانی وقت کے مطابق 8 بجے ہونے والے میچ موزوں رہیں گے۔ لیکن اس وجہ سے میں شاید ارجنٹینا، برازیل اور پرتگال جیسی بڑی ٹیموں کے ناک آؤٹ میچوں کو کور نہیں کر پاؤں گا جو پاکستانی وقت کے مطابق رات 12 بجےکھیلے جائیں گے۔ لیکن مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ میں نے اس عالمی کپ کے زیادہ تر اہم لمحات کو کور کرلیا ہے۔

کل میں نے جرمنی کا ٹورنامنٹ سے باہر ہونا بھی کور کرلیا۔ جرمنی نے اچھا کھیل پیش کیا، وہ جیتے بھی لیکن چونکہ وہ پچھلا میچ ہار چکے تھے اس لیے یہ میچ انہیں بڑے گول مارجن سے جیتنا تھا۔

لیکن جرمنی کے میچ سے پہلے میں نے کروشیا اور بیلجیئم کا میچ بھی کور کیا جو کافی دلچسپ تھا۔

کروشیا اور بیلجیئم کے فیصلہ کن میچ سے قبل کھلاڑی ترانہ پڑھتے ہوئے— تصویر: لکھاری
کروشیا اور بیلجیئم کے فیصلہ کن میچ سے قبل کھلاڑی ترانہ پڑھتے ہوئے— تصویر: لکھاری

2018ء کے عالمی کپ میں کروشیا کے آخری تینوں میچ میں نے کور کیے تھے۔ یہ مجھے اس حوالے سے بھی یاد ہے کیونکہ کروشیا کا ایک میچ کور کرنے مجھے ماسکو سے سوچی پہنچنا تھا۔

تو ہوا کچھ یوں تھا کہ اس سے پہلے میں ایک میچ کور کررہا تھا جس کے بعد مجھے ماسکو ٹرین کے ذریعے پہنچنا تھا جس کے ٹھیک 5 گھنٹے بعد سوچی پہنچنے کے لیے میری فلائٹ تھی۔ مگر پرواز تاخیر کا شکار ہوگئی اور جب میں سوچی ایئرپورٹ پہنچا تو میچ شروع ہوچکا تھا، اسی لیے تمام سڑکیں بند ہوچکی تھیں۔ تو شاید اس دن میں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ پیدل چلا تھا۔ ایئرپورٹ سے اسٹیڈیم قریب ہی تھا لیکن پیدل چلنے کے حساب سے مسافت زیادہ تھی۔ اس میچ میں کروشیا نے روس کو پینلٹی شوٹ آؤٹ پر شکست دی تھی۔

تو کل رات جو کروشیا کا میچ میں نے کور کیا وہ پچھلے عالمی کپ کے بعد کروشیا کا میرا پہلا میچ تھا۔ کروشیا کے کھلاڑی لوکا موڈرچ میرے پسندیدہ ہیں اس لیے میں نے ان کو دیکھنے کا موقع جانے نہیں دیا۔ اہم میچ تھا اور کروشیا نے اگلے مرحلے میں رسائی حاصل کرلی تو اب امید یہی ہے کہ موڈرچ کا کھیل آگے بھی دیکھنے کو ملے گا۔

جیسے میں نے بتایا کہ مجھے صبح اٹھنے میں تاخیر ہوگئی تھی، اس لیے میں فیفا کی میڈیا شٹل میں نہیں بیٹھ پایا۔ ہم پاکستانی آرام کے طالب ہوتے ہیں لیکن اب اسٹیڈیم پہنچنا ضروری تھا اس لیے میں اور ٹیلی گراف انڈیا کے میرے صحافی دوست انشومن روئے نے اسٹیڈیم جانے کے لیے میٹرو سے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ میٹرو کے سفر میں نقصان یہ ہے کہ چلنا بہت پڑتا ہے اور اس میں اسٹیڈیم جانے والے شائقین کا رش بھی بہت ہوتا ہے۔ خیر کافی پیدل چل کر ہم میچ سے ایک گھنٹہ قبل اسٹیڈیم پہنچ گئے۔

نیوز ڈیڈلائن کافی سخت ہوتی ہے کیونکہ فیفا میڈیا شٹل میچ ختم ہونے کے 20 منٹ بعد ہی چلنا شروع ہوجاتی ہے لیکن کل خوش قسمتی سے مجھے پہلی شٹل مل گئی اور ہم البیت اسٹیڈیم کے لیے روانہ ہوگئے جو دوحہ سے کافی دُور ہے۔

دوسرے میچ میں جرمنی فتح کے باوجود ایونٹ سے باہر ہوگئی لیکن میرا کام وہاں ختم نہیں ہوا۔ جب کسی بڑی ٹیم کو شکست ہوتی ہے یا ایونٹ سے باہر ہوتی ہے تو ان کے ردِعمل کا انتظار ہم صحافیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ تو میچ کے بعد ہم مکسڈ زون میں گئے اور جرمن کھلاڑیوں کا انتظار کیا تاکہ کھلاڑیوں سے گفتگو کا موقع مل جائے۔

میڈیا سینٹر سے واپسی پر شٹل سے نظر آنے والا منظر — تصویر: لکھاری
میڈیا سینٹر سے واپسی پر شٹل سے نظر آنے والا منظر — تصویر: لکھاری

مجھے لگ رہا تھا کہ رات میں مکسڈ زون سے میڈیا سینٹر آئیں گے اور پھر کھانا کھا کر گھر روانہ ہوجائیں گے لیکن جس وقت ہم وہاں پہنچے، اس وقت کھانا ختم ہوچکا تھا۔ قطر میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں 2 بجے دکانیں بند ہوجاتی ہیں۔ تو اب مجھے اپنے گھر کے قریب ایسی جگہ ڈھونڈنی تھی جہاں اتنی رات کو کھانا مل سکے۔

تو 3 بجے ہم میڈیا سینٹر کی شٹل سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوئے اور اس شٹل نے ہمیں 3 بج کر 21 منٹ پر اپنے گھر کے پاس اتارا۔ اس کے بعد 10 منٹ پیدل چلنے کے بعد میں ایک شوارمے کی دکان پر پہنچا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ مقامی لوگ یہ دکان چلا رہے تھے اس لیے آخری وقت پر پہنچنے کے باوجود مجھے کھانا مل گیا اور یوں کل کا دن تمام ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں