لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

مسلسل جاری رہنے والی سیاسی محاذ آرائیوں نے ملک کو کمزور کردیا ہے۔ سیاسی تناؤ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

سیاسی رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سیاسی جنگ کا اگلا مرحلہ فیصلہ کُن ہوگا لیکن ان کی یہ جنگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ جنگ کی یہ مثال سیاسی رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔ مخالفین کو حریف کے بجائے دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں سیاست کا مقصد دشمن کو شکست دینے اور انہیں سیاسی منظرنامے سے باہر کرنا ہوتا ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ اسی طرح کے سیاسی رویوں سے بھری پڑی ہے اور یہ سیاسی روایت کا حصہ بن چکے ہیں۔ عدم برداشت اور جمہوری اقدار کی پامالی بھی ان ہی میں شامل ہے۔

جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ بات کرنے کو ترجیح نہیں دیتے جبکہ حزبِ اختلاف کے لوگ اکثر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا کہ یہ دونوں ایک صفحے پر تھے، جیسا کہ جب باہمی اتفاقِ رائے سے آئین کی 18ویں ترمیم کو اپنایا گیا تھا۔ لیکن پاکستان کی سیاست نے زیادہ تر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان شدید کشمکش اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوششوں کو ہی دیکھا ہے۔

نہ ختم ہونے والے سیاسی جھگڑوں نے ہی اسٹیبلیشمنٹ کی سیاسی منظرنامے میں واپسی اور اس میں مداخلت کرنے کے راستے بھی کھولے۔

یوں ملک کو ایک اور قیمت چکانی پڑی۔ یہاں ایسے سیاسی ماحول کا ہمیشہ فقدان ہی رہا جو مستحکم ہو اور جس کا مستقبل بھی بہتر نظر آرہا ہو۔ یہی چیز ملک کو درپیش گھمبیر مسائل حل کرنے میں رکاوٹ بنی۔ ان مسائل کو یا تو خود حل ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا یا پھر ان کے حل کے لیے قلیل مدتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ پاکستان کے معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ بھی یہی غیر مستحکم سیاسی صورتحال ہے۔

حالیہ ’ہائبرڈ تجربے‘ نے فوج کو قومی معاملات میں غیر رسمی اور وسیع کردار ادا کرنے کا موقع دیا لیکن پھر بھی دیکھا جائے تو ملک میں 2008ء کے بعد سے بلاتعطل جمہوری حکومتیں ہی رہی ہیں۔ اس دوران جمہوریت کو مستحکم ہونا چاہیے تھا، سیاسی جماعتوں کو جمہوری روایات کے فروغ کے لیے کاوشیں کرنی چاہیے تھیں لیکن ایسا ہوا نہیں۔

اس طرح نہ صرف ریاستی اداروں میں اختیارات کا توازن اور انہیں دوبارہ ترتیب دینے کا موقع ہاتھ سے گیا بلکہ سیاست کو تیزی سے تبدیل ہوتی معاشی اور سماجی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کا موقع بھی ضائع ہوگیا۔ ان میں بڑھتی ہوئی شہرکاری، متوسط طبقے کی شرح میں اضافہ، متنوع اور متحرک سماج کا اُبھر کے سامنے آنا اور ٹیکنالوجی کی بدولت عوام میں شعور آنے جیسی تبدیلیاں شامل ہیں۔

ان تبدیلیوں کے بعد نئے سیاسی نظام کو وجود میں آنا چاہیے تھا لیکن یہ اب بھی اپنی پرانی حالت میں ہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) متوسط طبقے اور نوجوانوں کی نمائندہ جماعت بن کر ابھری تھی۔ اس کی بنیاد اشرافیہ کے حوالے سے عوام میں پایا جانے والا غصہ تھا اور اس نے عمومی سیاست سے ہٹ کر سیاست کرنی تھی۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی مخصوص گروہ کی جماعت بن کر رہ گئی اور اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے بغیر حکومت کرنے میں ناکام رہی۔

دوسری جماعتوں کی طرح اس میں بھی سیاسی اشرافیہ، مقامی بااثر افراد اور مفادات کے پیچھے بھاگنے والے مخصوص افراد شامل ہوگئے۔ یہ لوگ ماضی میں انہی دو جماعتوں کا حصہ تھے جن کی بدعنوانی کی پی ٹی آئی مذمت کرتی آئی تھی۔ مصلحت کی اس سیاست نے پی ٹی آئی کو پاکستانی سیاست میں نئی روایت قائم کرنے سے محروم کردیا۔ پارٹی کی تنظیم پر شخصیت کو ترجیح دی گئی یہی وجہ تھی کہ پی ٹی آئی نئی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود پرانی جماعتوں سے مماثلت رکھنے لگی۔

اس کے نتیجے میں روایتی سیاست، سیاسی شخصیات کی مقبولیت اور اسٹیٹس کو پر عمل پیرا جماعتوں کے عوام سے متعلق طرزِ عمل میں کچھ تبدیلی ضرور آئیں۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ سماجی اور سیاسی ماحول میں تبدیلی کے باوجود، ریاست اور عوام کے تعلق میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ سیاست ہمیشہ سیاسی اشرفیہ کے درمیان ایک مقابلہ ہی رہے گی۔

افسوس کے ساتھ یہ جماعتیں بیانات تو خوب دیتی ہیں لیکن ان کے پاس کوئی ایسا نظریہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر وہ ملک کو آگے لے کر چلنے کا دعویٰ کریں۔ یہ سیاسی حریف جو ایک دوسرے کو حکومت کرنے کے لیے نااہل قرار دیتے ہیں ان کی پالیسیاں ایک دوسرے سے کچھ خاص مختلف بھی نہیں ہیں۔

اس پورے معاملے کی عکاسی پاکستان کے مایوس کن معاشی ریکارڈ سے بھی ہوتی ہے۔

حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو، معاشی معاملات پر سب کا مؤقف ایک جیسا ہی ہوتا ہے، حالانکہ اقتدار سنبھالنے سے قبل کیے گئے دعوے کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ ملک کے بڑھتے ہوئے بجٹ اور ادائیگیوں کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے اصلاحات کرنے اور اندرونی وسائل بڑھانے کے بجائے ان سب جماعتوں نے قرضے لینے کو ترجیح دی۔

سرد جنگ اور اس کے بعد ہماری خارجی پالیسی کی ترجیحات کی وجہ سے ہمیں جو بیرونی امداد ملی اس نے ہمارے اندر بیرونی امداد پر انحصار کرنے کی عادت پیدا کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت جو دیہاتوں اور شہروں کی اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے وہ معاشی اصلاحات لانے، وسائل کی تقسیم اور اپنے بااثر حامیوں پر ٹیکس عائد کرنے سے گریز کرتی ہے۔

امداد یا قرضوں سے حاصل ہونے والی معاشی ترقی بالکل بھی بُری نہیں ہوگی اگر اس کے نتیجے میں ایسی اصلاحات نافذ ہوسکیں جن سے بنیادی معاشی مسائل کو حل کیا جاسکے۔ ان میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، معیشت کو دستاویزی بنانا، ایکسپورٹ بیس میں تنوع لانا اور سرمایہ کاری کی اس سطح کو فنانس کرنے کے لیے بچت کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہے جو اقتصادی ترقی کی اس شرح کو برقرار رکھ سکے جو آبادی میں اضافے کی شرح سے زیادہ ہو۔

ایسا کچھ نہیں ہوا اور بیرونی وسائل اور ترسیلاتِ زر کی دستیابی کے باعث حکمراں اشرافیہ ہماری معیشت کے ساختی مسائل کو نظر انداز کرتی رہی۔ اس کے علاوہ ہر حکومت نے ہی دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ حاصل کیا۔

معاشی انتظامات کے لیے امداد پر انحصار کیا جانے لگا جس نے ملک کی سول اور ملٹری قیادت کو موقع فراہم کیا کہ وہ ٹیکس اصلاحات جیسی ضروری اصلاحات کو ملتوی کردیں۔ یہ اصلاحات معیشت کو عملی اور پائیدار بحالی کے راستے پر لانے میں مددگار ثابت ہوسکتی تھیں۔

یکے بعد دیگرے آنے والی ان حکومتوں نے مالیاتی ترقی اور ضروریات کے نام پر بھاری قرضہ لیا۔ نتیجتاً ملک اندورنی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ ان قرضوں کو ادا کرنا ناممکن لگ رہا ہے۔ قرضوں کا یہ بوجھ معیشت کو نہ صرف مفلوج کررہا ہے بلکہ اس سے مہنگائی کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

چند مخصوص مواقعوں کے علاوہ، مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت نے ہمیشہ معاشی معاملات سے نمٹنے کے لیے ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے جو انہیں آسان لگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ایک کے بعد دوسرے معاشی بحران کا شکار ہورہا ہے۔ یہ جماعتیں مخصوص حلقوں پر توجہ دے رہی ہیں اور ان کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے اسٹیٹس اپنی جگہ برقرار ہے۔

اس کی وضاحت اس طرح ہوتی ہے کہ سیاسی اشرافیہ ایسے کسی اقدام کا خیر مقدم نہیں کرتی جن سے ان کی سیاسی حیثیت یا مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہو۔ ساتھ ہی ان کی معاشی پالیسیاں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ عوامی وسائل پر دراصل اشرافیہ قابض ہے۔

ایک بات تو واضح ہے کہ تند و تیز بیان بازی سے اشرافیہ کے درمیان تنازع کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ اس کا پریشان کُن پہلو یہ ہے کہ پاکستان غیر فعال سیاست، بڑھتے ہوئے حکومتی چیلنجز، طویل مدتی معاشی انتظام اور ریاستی اداروں پر سے عوام کے عدم اعتماد کے جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے، ان جماعتوں کے پاس اس سے نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے۔


یہ مضمون 6 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں