لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

نئے سال کا آغاز ہوچکا ہے لیکن پاکستان کو ابھی بھی گزشتہ سال کے مسائل نے گھیرا ہوا ہے۔

یہ مسائل چند ماہ نہیں بلکہ اس سے بھی پرانے ہیں۔ یہ بات اتوار کے روز اخبارات میں نئے آرمی چیف کے بیان سے ایک بار پھر اجاگر ہوئی جس میں انہوں نے ہمیں یاددہانی کروائی کہ پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔

لگتا ہے کہ جیسے دہائیوں سے ہم بحیثیت قوم اس نازک موڑ پر ہی اٹکے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک نے ہمیشہ سے ہی خود کو ایک دوراہے پر پایا ہے۔ لیکن یہ اتنی پریشان کُن بات نہیں جتنا اہم یہ سوال ہے کہ ہم آخر اب تک اس نازک موڑ پر کیوں کھڑے ہیں؟ کیا ہم ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے ملک کی گاڑی رک گئی ہے؟ یا پھر ہم جانتے ہی نہیں کہ اس نازک موڑ سے کیسے گزرا جائے؟

لگتا ہے کہ قیامت کے وقت کی طرح یہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی جانتی ہے کہ ہم اس نازک موڑ سے کب نکلیں گے۔ جہاں تک ہماری بات ہے تو ہمیں اس نازک موڑ سے نکلنے کے لیے اپنا مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔

آرمی چیف نے جب ہماری نازک حالت کی بات کی تو ان کا اشارہ شاید پاکستان کو درپیش 2 سنگین مسائل کی جانب تھا۔ ہمارا ملک اس وقت کمزور معیشت اور دہشتگردی جیسے 2 بڑے مسائل سے نبرد آزما ہے۔

دونوں ہی مسائل پر عوامی بحث ناکافی معلومات پر مبنی ہے۔

اگر دہشتگردی کی بات کی جائے تو 2008ء کے بعد کی صورتحال پر ہم نے کبھی کُھل کر بات نہیں کی۔ ہم سب صرف یہ جانتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف کیا جانے والا فوجی آپریشن کامیاب رہا تھا۔ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں کیوں، کیا اور کیسے جیسے سوالات ہماری جانب سے یا تو بہت کم یا پھر کبھی پوچھے ہی نہیں گئے۔

دہشتگردی کے خلاف افواج کے آپریشن کے علاوہ ہمیں نیشنل ایکشن پلان سے بھی کافی زیادہ امیدیں تھیں لیکن وہ اس حوالے سے زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ ہم یہ کبھی جان نہیں پائے کہ اس منصوبے کو کارآمد بنانے کے لیے آخر ہمیں کن اقدامات کی ضرورت تھی۔

گزشتہ سال ہم نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔ مذاکرات تو ختم ہوگئے لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا یہ خیال آخر تھا کس کا (سوائے ان لوگوں کے جن کے ’ذرائع‘ نے انہیں باخبر رکھا ہے)۔ لہٰذا ہم بس اس بارے میں بحث ہی کرسکتے ہیں کہ آیا یہ خیال سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تھا یا پھر یہ ادارے کا فیصلہ تھا، اور اس کی وجہ کیا تھی؟

مزید یہ کہ ہمارے پاس عسکریت پسند گروہوں کے ملک میں دوبارہ سرگرم ہونے کی وجوہات کے حوالے سے کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ صرف یہ بتا دینے سے وضاحت نہیں ہوگی کہ ٹی ٹی پی پاکستان کو نشانہ بنانے کے لیے افغانستان میں فلانی جگہ استعمال کر رہی ہے۔

اگر ٹی ٹی پی کو پاکستان میں اپنی کارروائیاں کرنے کے لیے صرف افغانستان میں نقل و حمل کی آزادی چاہیے تھی تو پھر اربوں روپے کی باڑ لگا کر آخر ہم نے کیا حاصل کیا؟ پھر سوات کے سراپا احتجاج رہائشیوں کا کیا جو ایک بار پھر اپنے درمیان دہشتگردوں کو دیکھ کر پریشان ہیں؟ آخر ان عسکریت پسند گروہوں کی واپسی کیسے ہوئی؟

دہشتگردی کے خلاف جنگ پر اتفاقِ رائے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ان تمام سوالات کے جواب تلاش کریں۔ شاید ان جوابات کی وجہ سے ہماری مجموعی پالیسی کی سمت درست ہوجائے۔

دوسرا اہم مسئلہ جو ہمیں اس نازک صورتحال سے نکلنے نہیں دیتا وہ ہے ہماری معیشت۔ لیکن عسکریت پسندی کے برعکس، یہاں معاملہ معلومات کی کمی کا نہیں بلکہ جان بوجھ کر برتی جانے والی غفلت کا ہے۔

ہمارا اہم مسئلہ معاشی اتار چڑھاؤ ہے۔ بڑھتی ہوئی درآمدات ہمیں آئی ایم ایف کے در پر لے جاتی ہے جس کے پروگرامز کی وجہ سے ہماری معیشت ڈوبنے لگتی ہے۔ اس کا حل طویل مدتی اصلاحات ہیں جو پائیدار ترقی کا باعث بنیں گے۔ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم طلب اور مقامی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ دونوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اپنی برآمدات کو فروغ دیں۔ تمام ماہرینِ معیشت اس وقت پاکستان کو اسی بات کا مشورہ دے رہے ہیں۔

لیکن ان فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوپاتا کیونکہ ان سخت فیصلوں کی ہمت نہیں ہے۔

تو پھر اس کا حل ہم نے یہ نکالا ہے کہ اب ہم دکھاوا کرنے لگے ہیں جیسے ہمارے پاس ان سوالات کے جواب ہیں ہی نہیں (دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے خیال میں ہمارے پاس عسکریت پسندی کے مسائل کا حل موجود ہے جبکہ وہ مسئلہ کافی پیچیدہ ہے جبکہ معاشی مسائل کا حل ہم نہیں جانتے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے )۔

پہلے تو ہم نے 4 سال اس بحث میں گزار دیے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی وجہ سے ہمارے یہ معاشی حالات ہیں (اور یہ کہ اسد عمر اس بات سے لاعلم ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں اور حفیظ شیخ آئی ایم ایف کے آدمی ہیں) پھر ہم اس بحث میں اُلجھ گئے کہ مفتاح اسمٰعیل صورتحال کو قابو میں کرنے میں ناکام ہیں۔

اور اب جب ہمارے پاس کوئی ایسا مسیحا بھی موجود نہیں جو روپے کی گرتی ہوئی قدر کو بریک لگا سکے (حتیٰ کہ اسحٰق ڈار کا تجربہ بھی کسی کام نہ آیا)، تو اب ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہماری معاشی مشکلات کا حل صرف اتفاقِ رائے، میثاقِ معیشت اور متحدہ حکومت میں ہے۔

جس طرح پہلے (2018ء سے اکتوبر 2022ء تک) ہماری اسٹیبلشمنٹ اور ہمارا میڈیا سیاستدانوں کی نااہلی کی رَٹ لگائے رکھتا تھا ویسے ہی اب ہم اتفاقِ رائے کو تمام مسائل کا حل سمجھ رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم پالیسیوں کے بجائے افراد پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اور اب میثاقِ معیشت اور اتفاقِ رائے کا یہ تصور اس قدر عام ہوچکا ہے کہ ہم یہ پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ ہمیں آخر کس بات پر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے اور کیا حکمران جماعتیں اس معاملے پر متفق ہیں؟ کیا مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اسٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے سرکاری اداروں کی نجکاری کے حوالے سے ایک صفحے پر ہیں؟ پھر توانائی کے معاملات پر اتفاقِ رائے کیسے ہوسکتا ہے، مثال کے طور پر اگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوس) کو اگر صوبوں کے سپرد کردیا جائے تو یہ کیسے ممکن ہوگا؟ یا سیاسی جماعتیں ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں اپنے پسندیدہ لوگوں اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز سے ٹیکس کیسے طلب کریں گی؟

یہ سب نہایت تلخ سوالات ہیں۔ اور شاید اسی لیے معاشی مسائل کے حل کے لیے میثاقِ جمہوریت اور متحدہ حکومتوں کے حوالے سے بڑی بڑی باتیں کرنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ اس سب سے ان منصوبوں کی یاد تازہ ہوتی ہے جو عراق کو بہتر بنانے کے لیے 2002ء میں بنائے گئے تھے۔ وہ خیال شاید بہت اچھا تھا لیکن اس کا نفاذ نہایت مشکل تھا۔

بلاشبہ اگر ہمیں اس نازک صورتحال سے نکلنا ہے تو ہمیں پرانی روایتوں کے بجائے ایمانداری اور اپنا مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن کچھ بھی ہو ہم آج بھی روایتی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس نازک موڑ سے بلآخر اگر ہمیں گزرنا ہے تو ہمیں سنجیدہ فیصلے لینے ہوں گے۔ لہٰذا اس تناظر سے دیکھا جائے تو نئے سال کا آغاز خوش آئند تو نہیں ہے۔


یہ مضمون 3 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

rizwan soomro Jan 04, 2023 10:33am
یہ سب امپورٹڈ حکومت کی وجہ سے اور اس میڈیا کی وجہ سے جو کروڑوں روپے کے ایڈ کے لیے عوامی ترجمان بننے سے انکار ی ہیں
Yousuf Edhi Jan 05, 2023 11:34am
جوہر موڑ ، گلشن موڑ اور انڈہ موڑ کے بعد انتہائی نازک موڑ