سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ کیس کی تحقیقات کرنے والی خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ نے ہائی پروفائل کیس کو نقصان پہنچانے اور تحقیقات میں غیر پیشہ ورانہ طریقے سے کام کرنے کےالزام میں ٹیم کے 4 اعلیٰ افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ لاہورکیپیٹل پولیس افسر (سی سی پی او) غلام محمود ڈوگر نے گجرات ڈی پی او سید غضنفر علی شاہ اور ایس ایس پی سی ٹی ڈی (جو تحقیقاتی ٹیم کا حصہ نہیں تھے) اور دیگر 2 اعلیٰ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی تجویز کردی ہے، ان افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے جائے وقوع سے گرفتار مرکزی ملزم کا بیان مبینہ طور پر ریکارڈ کرکے میڈیا کو لیک کیا تھا۔

ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کو بھیجی گئی رپورٹ میں غلام محمود ڈوگر نے مذکورہ افسران پر غیر پیشہ ورانہ، اختیارات کا غلط استعمال ، شواہد میں تبدیلی، اور میڈیا کو خفیہ معلومات لیک کرنےکا الزام عائد کیا۔

ان الزامات کے بعد 4 اراکین نے سی سی پی او کو خط میں سنگین تحفظات کا اظہار کیا جس میں وہ تحقیقات کے دوران اثر انداز ہونے اور حملے میں ایک سے زائد حملہ آور ہونے کے دعوؤں کو متنازع بنایا تھا۔

جے آئی ٹی تحقیقات کے متعلقہ ایک افسر نے ڈان کو بتایا کہ سی سی پی او نے 29 نومبر کو بھیجی گئی رپورٹ میں حکومت کو آر پی او سید غضنفر علی شاہ کو ٹیم سے ہٹانے کی سفارش کی تھی کیونکہ وہ تحقیقات میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب سے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل ہوئی ہے غضنفر علی شاہ نے صرف دو اجلاس میں شرکت کی ہے اور جب ان کی عدم دستیابی کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو غضنفر علی معذرت کرتے رہے کہ وہ کچھہ علاقے میں مجرموں کے خلاف آپریشن میں مصروف تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیرآباد میں جائے وقوع کے قریب عمارت کی چھت پر گولی کے متعدد خول ملنے کے باوجود ایس پی طارق نے شواہد کو تبدیل کرکے صرف ایک حملہ آور ہونے کے شواہد پیش کیے۔

16 نومبر کو ہونے والی جے آئی ٹی کے پہلے اجلاس میں سی سی پی او نے ایس ایس پی نصیب اللہ اور ایس پی طارق کو تین زاویوں سے تحقیقات کرنے کا ٹاسک سونپا گیا تھا جن میں مرکزی گرفتار ملزم کی ویڈیو لیک کرکے میڈیا میں لیک کیوں کی گئی؟، حملے کی ایف آئی آر درج ہونے میں تاخیر پیش کیوں ہوئی؟ اور پولیس ریکارڈ میں مرکزی ملزم کی گرفتاری کا ذکر تاخیر سے کیوں کیا گیا؟ شامل ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ تاہم افسران نے جائے وقوع کا دورہ نہیں کیا اور عدالت کی ہدایات کے باوجود ان افسران نے نہ ہی مذکورہ زاویوں سے تحقیقات کی تھی۔

سی سی پی او نے رپورٹ میں مزید بتایا کہ افسران نے ویڈیو ریکارڈنگ اور میڈیا کو لیک کرنے کے حوالے سے گجرات ڈی پی او اور سی ٹی ڈی ایس ایس پی کو بھی فون نہیں کیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم کے دو وڈیو بیان پولیس اسٹیشن میں گجرات کے ڈی پی او کی موجودگی میں ریکارڈ کیے گئے، ان دونوں ویڈیو بیان میں تضاد ہے جس نے تحقیقات میں خلل ڈالا۔

سی سی پی او نے رپورٹ میں شکایت کرتے ہوئے کہا کہ 29 نومبر کو ہونے والی سماعت میں جب عدالت نے رپورٹ مانگی تو دونوں افسران رپورٹ پیش کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے جے آئی ٹی کے سربراہ کو شرمندگی اُٹھانی پڑی۔

رپورٹ میں محمود ڈوگر نے اے آئی جی چوہان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی ٹیم کی تشکیل کے 15 روز تک انہوں نے اجلاس میں شرکت نہیں کی اور جب چوہان نے جے آئی ٹی میں شرکت کی تو انہوں نے ملزم کے خلاف تحقیقات کرنے میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔

غلام محمود ڈوگر نے الزم لگاتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی افسر انسپکٹر سہدارا امتیاز نے جائے وقوع سے اہم شواہد اکھٹا کیے ہیں جس سے حملے کے دوران ایک سے زائد حملہ آوروں کی تصدیق ظاہر ہوتی ہے لیکن جے آئی ٹی اراکین نے شواہد کو نقصانات/تبدیل کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیرچ آپریشن کے دوران وزیرآباد میں جائے وقوع کے قریب عمارت کی چھت سے گولی کے 30 خون ملے اور ایس پی طارق نے جائے وقوع سے ہی ملزم کی ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔

تاہم ویڈیو ریکارڈنگ کے باوجود افسر نے صرف ایک حملہ آور کی اطلاع دی۔

سی سی پی او غلام محمود ڈوگر نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئےدعویٰ کیا کہ ٹیم کے اراکین نے شواہد کے حوالے سے کسی بھی طرح سے اطلاع نہیں دی اور انہوں نے رپورٹ تیار کرکے میڈیا کو لیک کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں